عشق نے اُسے ہار نہیں ہونے دیا
جسے تو نے پار نہیں ہونے دیا
کنارے روانی کا بھرم جانتے ہیں
طوفاں میں بےکنار نہیں ہونے دیا
ڈوب کر لاج نبھا گئی سوہنی
عشق کو بےاعتبار نہیں ہونے دیا
پیاس سے پیاس بجھائی اپنی
صحرا کو شرمسار نہیں ہونے دیا
کردار میری پہچان ہے نعیم
اسے کبھی مسمار نہیں ہونے دیا