تیری یادوں کو سنبھال رکھنا تھا

غزل

تیری یادوں کو سنبھال رکھنا تھا
اب خیال آتا ہے ترا خیال رکھنا تھا

قبولیت کی گھڑی میں ہوش نہ رہی
تیری بارگاہ میں کیا سوال رکھنا تھا

کیسی گزری ہے ، کیسے گزرے گی
تیرے قدموں میں اپنا حال رکھنا تھا

پانیوں کے عشق نے آوارہ گرد بنا دیا
تجھے تو خبر تھی کہاں جال رکھنا تھا

دھو پائیں گے کہاں بوڑھے آنسو نعیم
جوانی میں نظر نامہ اعمال رکھنا تھا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top