ہر گلی میں بکھرے ہجرتوں کے نشاں ہیں
مرے شہر میں ہر سو خالی مکاں ہیں
مقتل میں سر کو اٹھا کر چلنے والے
ڈھونڈ کر لاؤ وہ سر پھرے کہاں ہیں
تری یاد سے ہوتا رہا رات بھر جھگڑا
مری روح پہ خراشوں کے نشاں ہیں
میں تو جانتا ہوں صرف محبت کا جہاں
نہیں معلوم ترے اور بھی جہاں ہیں
پوچھتے تھے ہر کسی سے جو نعیم کا پتہ
کوئی بتائے مجھے وہ لوگ کہاں ہیں