آتا ہے زلزلہ عرشِ بریں پر
گرتا ہے جب آنسو زمیں پر
ہوتے ہیں سجدے عرش سے
دیکھ کرم خاک نشیں پر
بہشت کے حور و غلماں
مٹتے ہیں خاکی حسیں پر
جھوم اٹھتا ہے یزداں بھی
ابنِ آدم کی اک آمیں پر
خاک جب خاک سے ملتی ہے نعیم
کِھل اٹھتا ہے گلاب جبیں پر
غزل
آتا ہے زلزلہ عرشِ بریں پر
گرتا ہے جب آنسو زمیں پر
ہوتے ہیں سجدے عرش سے
دیکھ کرم خاک نشیں پر
بہشت کے حور و غلماں
مٹتے ہیں خاکی حسیں پر
جھوم اٹھتا ہے یزداں بھی
ابنِ آدم کی اک آمیں پر
خاک جب خاک سے ملتی ہے نعیم
کِھل اٹھتا ہے گلاب جبیں پر