تم یہ سمجھے ہو زمانے کو دکھاؤں گا
میں تو اپنے زخموں کے ناز اٹھاؤں گا
تجھے پہلو میں رکھا ہے مرے دل یہی کافی ہے
لاکھ شور مچا ترے بھلاوے میں نہیں آؤں گا
تو ہی تو خالق ہے مرے سارے قصّے کا
تجھ کو وہم ہے تجھے قصہء درد سناؤں گا
مشتِ خاک ہوں خاک اپنی صفائی دوں گا
ترا حشر سجانے کو خاک اپنی میں بچھاؤں گا
حشر میں سجدے کی اجازت کا ہے طلبگار نعیم
جا کے سجدے میں خاک ماتھے پہ سجاؤں گا