بند گلی سے ناطہ توڑنا پڑا

غزل

بند گلی سے ناطہ توڑنا پڑا
کرائے کا مکان تھا چھوڑنا پڑا

کب تلک دیکھتا دراڑوں کا تماشہ
دامن مجھے آخر نچوڑنا پڑا

میں نے زندگی کا کیا خوب حق ادا
وقت کو میرے پیچھے دوڑنا پڑا

بنجر ہو چلی تھی دل کی سرزمین
آنکھوں کی نہروں کا رُخ موڑنا پڑا

بلند فضاؤں میں اڑنے کے باوجود
قبائے خاک کو نعیم اوڑھنا پڑا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top