اسی لئے تو کوئی منظر نہیں بدلتا
چشمہ بدلتا ہے وہ نظر نہیں بدلتا
اک دوسرے سے کہہ رہے تھے پاؤں کے چھالے
رستہ بدل بھی جائے تو سفر نہیں بدلتا
کتنے روپ بدل کے آ رہا ہے یزید ازل سے
ہر کربلا گواہ ہے اصغر نہیں بدلتا
مقدر جسے کہتے ہیں وہ ہے ہمت کا نچوڑ
دریا بدل کے دیکھے ، بھنور نہیں بدلتا
میں نے پار اتاری ہے پتھر کی ناؤ نعیم
سامنے آئے جو کہتا ہے مقدر نہیں بدلتا