داد دینے کا اصول پوچھ رہا تھا
اشعار کا شانِ نزول پوچھ رہا تھا
کیا مجھ سے بھی ہو گئی ہے
یاد رکھنے کی بھول پوچھ رہا تھا
میں نے کہا محبت ہے مجھے
وہ وجہ معقول پوچھ رہا تھا
مرے ورثا کو خوں بہا دو کے نا
قاتل سے مقتول پوچھ رہا تھا
پاؤں میں چبھ کے سر سے نکل جاؤں
بچھی پلک کا ببول پوچھ رہا تھا
رائگاں تو نہیں گئی قربانی مری
کتاب کا سوکھا پھول پوچھ رہا تھا
محفل پہ طاری تھی نغمگی اور!
نعیم زلفوں کی دھول پوچھ رہا تھا