تیری یادوں کے آثار ملے

غزل

تیری یادوں کے آثار ملے
جیسے کہ پرانے یار ملے

ہجر کی کڑکتی دھوپ میں
تیرے قرب کی دیوار ملے

کاش پرانے کپڑوں سے
رومال خوشبو دار ملے

اپنے نام کا وظیفہ پھونک
میری کشتی کو پتوار ملے

فرشتوں سے بھی اوجھل نعیم
ہو حکم تو بیچ بازار ملے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top