یہ رنج کیا ہیں خود پر گزرے تو ہم سمجھے
یہ الم سارے خود جو جھیلے تو ہم سمجھے
کل جن کی چھاؤں پہ صرف اپنا حق سمجھا تھا
ان پیڑوں پر نہیں پھل اترے تو ہم سمجھے
جس کی حالت پر ہنستے رہے تھے لوگ سبھی
لاش اور خطوط جو پھر نکلے تو ہم سمجھے
خفا کیوں تھے پکی سڑک سے یہ گاؤں والے
اپنے بچے شہر جا کے جو نہ لوٹے تو ہم سمجھے
ہم نے جن پر تھا باندھا بھروسہ بہت سارا
سکے آج نعیم جو کھوٹے نکلے تو ہم