(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
انسان کا دل ہمیشہ اُڑنے کو ترستا ہے، اُس کی آرزو ہے کہ وہ آسمانوں کو چھو لے، دنیا کی محدودیتوں سے آزاد ہو کر اپنے خوابوں کی پرواز کرے۔ مگر انسان کی یہ اُڑان، اس کی داخلی چاہت اور آزادی کی تمنا کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ اُڑنا محض جسمانی نہیں، بلکہ روحانی سطح پر بھی ہے، جہاں وہ اپنی دنیا سے آگے بڑھ کر نئے امکانات، نئے جہانوں کا خواب دیکھتا ہے۔
لیکن پرندہ، جو خود اپنی فطرت میں آزادی کا امین ہے، اس کی آرزو کچھ اور ہے۔ وہ جس دن آسمان پر پرواز کرتا ہے، وہ زمین سے جڑنے کی تمنا کرتا ہے۔ اس کے لیے زمین کا کوئی گوشہ، کوئی نیا آشیانہ، ایک سکون اور پناہ بن جاتا ہے۔ پرندہ ہمیشہ آسمان میں نہیں رہنا چاہتا؛ اُس کی اصل خواہش ایک محفوظ گھر کی ہے، جہاں وہ آرام سے اپنی زندگی گزار سکے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پرندہ اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے، جہاں اُڑنے کا جوش سکون میں بدل جاتا ہے۔
یہ دو متضاد آرزوئیں دراصل انسان اور پرندے کی فطری اور روحانی حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ انسان کا دل آزادی کی پرواز میں جیتا ہے، جب کہ پرندہ اپنی حقیقت میں سکون، پناہ اور استحکام کا متمنی ہے۔ دونوں کے درمیان ایک لطیف توازن ہوتا ہے، جسے سمجھنا دراصل زندگی کی گہری حقیقتوں کو سمجھنے کی طرف ایک قدم ہوتا ہے۔
انسان کی چاہت، جو آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنا ہے، اور پرندے کی خواہش، جو زمین کے گھنے درختوں کے نیچے پناہ پانے کی ہے، ایک دوسرے کے متبادل نہیں، بلکہ دونوں ایک مکمل چکر کی تکمیل ہیں۔ جہاں ایک کی پرواز کا اختتام دوسرے کے سکون میں ہوتا ہے۔ دراصل، یہ دونوں کی جستجو ایک مکمل دائرہ ہے، جہاں ایک کا اختتام دوسرے کی تکمیل ہے اور یوں، دونوں ایک دوسرے کے متوازی سفر کی طرح، کائنات کے تسلسل کا حصہ بنتے ہیں۔ اور یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ انسان کی روح بھی اُڑ کر واپس زمین پر آتی ہے، اور وہاں وہ سکون پاتی ہے جسے وہ اپنی ہمت سے ڈھونڈتا ہے۔
یعنی، کبھی کبھی ہمیں اپنے اندر کی پرواز کو روک کر، زمین سے جڑنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کبھی ہمیں اپنی موجودہ حقیقت سے بلند ہو کر، اپنے خوابوں کی طرف اڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو انسان کی چاہت اور پرندے کی آرزو کو یکجا دیکھنا ہوگا، کیوں کہ دونوں کی تکمیل ایک دوسرے میں چھپی ہوئی ہے۔