(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
محبت ایک ابدی سلطنت ہے، مگر اس کے تخت پر کوئی دائمی بادشاہ نہیں ہوتا۔ محبوب اس میں ایک عارضی مسافر کی مانند ہوتا ہے، جسے لوگ محبت کی عظمت سے بلند کر کے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب محبت اپنی فطری عظمت کو بھول کر ایک نوکرانی کی مانند اس کے قدموں میں سر جھکا لیتی ہے، اور بادشاہ اپنے عرش کو آسمان کی سرحد سمجھنے لگتا ہے۔
محبوب، جو کبھی محبت کی روشنی میں دمکتا تھا، اب اس روشنی کو اپنی جاگیر سمجھ کر تاریکی بانٹنے لگتا ہے۔ جیسے سنگ تراش اپنے ہی تراشے ہوئے مجسمے کو تیشہ مار دے، ویسے ہی محبوب محبت کی لطافت کو اپنے انا کے تیشے سے مجروح کرنے لگتا ہے۔ مگر محبت۔۔۔۔یہ بے نیاز دیوی۔۔۔۔۔نہ کوئی گلہ کرتی ہے، نہ کوئی احتجاج۔ وہ اپنی شکستہ دیواروں کے پاس کھڑی ہنستی رہتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو: “میں تو ازل سے تمہیں یہ سبق سکھانے آئی تھی کہ محبت کو کبھی کسی کے قدموں میں نہ رکھو، کیونکہ محبت خود تخت ہے، محبوب محض ایک عارضی بادشاہ۔”
محبت کا وقار اُس آسمانی تاج کی مانند ہے جو زمین کی کسی مٹی سے آلودہ نہیں ہوتا۔ مگر جب انسان اپنی بے خودی میں یہ تاج اتار کر محبوب کے سر پر رکھ دیتا ہے تو محبوب خود کو کائنات کا مرکز سمجھنے لگتا ہے۔ مگر آسمان چھونے کی خواہش رکھنے والے کو زمین کی تہیں اپنی گہرائی میں دفن کرنے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔۔۔۔یہ انجام محبت کی تحقیر کرنے والے ہر وجود کا مقدر ہوتا ہے۔
محبت کسی عدالت کے مقدمات میں الجھنے کی محتاج نہیں۔ وہ تو ایک آئینہ ہے، جو انسان کو اس کی کمزوریوں، حماقتوں اور زخموں کی تصویر دکھاتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ محبت آئینہ دکھا کر خود بھی ہنستے ہوئے گزر جاتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو: “تم نے میری عظمت کو پامال کیا، میں نے تو بس اپنا عکس پیش کیا تھا۔”
محبت کی سرزمین پر قدم رکھو تو یاد رکھو کہ یہاں تخت کسی محبوب کے لیے نہیں، بلکہ محبت کے لیے بچھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی محبوب خود کو اس تخت کا دائمی وارث سمجھنے لگے تو اسے زمین کی ساتویں تہہ میں دفن ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ محبت تخت بانٹتی نہیں، خود تخت ہے۔
محبت اپنی ہنسی میں بھی ایک ابدی راز چھپائے رکھتی ہے۔۔۔۔یہ راز کہ محبت کبھی فنا نہیں ہوتی، صرف محبوب بدلتے رہتے ہیں۔