(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کائنات کے وسیع کینوس پر ہر شے، ہر تجربہ، ہر لمحہ ایک علامت ہے۔ سمندر کے کنارے بکھرے چمکدار سنگریزے بھی اسی فلسفیانہ بیانیے کا ایک دلکش استعارہ ہیں۔ یہ سنگریزے محض پتھر نہیں، بلکہ زندگی کی ریاضت، وقت کی صیقل، اور مصائب کی تابانی کا آئینہ ہیں۔ ان کی چمک کوئی فوری یا سطحی نعمت نہیں، بلکہ صدیوں کی طویل آزمائشوں کا ثمر ہے۔
انسانی زندگی بھی انہی سنگریزوں کی طرح مسلسل تبدیلی اور جدوجہد کا نام ہے۔ ہر لہر جو ایک سنگریز کو تراشتی ہے، وہی انسان کے وجود پر بھی نقش چھوڑتی ہے۔ یہ دکھ، مسرت، شکست، کامیابی۔۔۔۔سب مل کر روح کو صیقل کرتے ہیں، اسے وہ نکھار عطا کرتے ہیں جو وقتی نہیں بلکہ دائمی ہوتا ہے۔
زندگی کے اس فلسفے میں حُسن محض ظاہری جمال کا نام نہیں بلکہ اندرونی نکھار، روحانی بلندی اور ریاضت کا استعارہ ہے۔ انسان جب دکھوں کے تھپیڑوں کو قبول کرتا ہے، جب اپنی کمزوریوں سے سیکھتا ہے اور جب ہر ناکامی کو کامیابی کا زینہ بناتا ہے، تو وہ ایک چمکدار سنگریز کی مانند نکھر جاتا ہے۔
یہی فلسفہ ہمیں اس آفاقی حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ حُسن کوئی جامد حالت نہیں، بلکہ مسلسل عمل ہے۔ یہ ہر اس شخص کا مقدر ہے جو زندگی کے طوفانوں سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ ان کے ساتھ بہتا ہے، ان سے سیکھتا ہے اور اپنی ذات میں ایک نئی روشنی پیدا کرتا ہے۔
زندگی کا سمندر ہمیں ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے۔ جس طرح سمندر کی لہریں سنگریزوں کو تراشتی ہیں، اسی طرح انسانی رشتے ہمیں نکھارتے ہیں۔ ہمیں نہ صرف خود کو صیقل کرنا ہے بلکہ دوسروں کی چمک میں بھی حصہ ڈالنا ہے۔ محبت، حوصلہ، ہمدردی۔۔۔یہ سب وہ لہریں ہیں جو ہماری روح کو خوبصورت بناتی ہیں۔
سنگریزوں کا یہ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی ایک مسلسل ریاضت ہے، اور حقیقی حُسن وہی ہے جو جدوجہد، صبر اور استقامت سے پیدا ہوتا ہے۔ تو آئیے، اس فلسفیانہ سفر کو اپنائیں، اپنی روح کو صیقل کریں اور زندگی کے ہر لمحے کو اس چمک سے مالا مال کریں جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔