(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمیں ہماری اپنی آنکھوں سے دنیا کا عکس دکھاتا ہے۔ مگر جب ہم دوسروں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، تو وہ آئینہ دھندلا جاتا ہے اور ہماری اپنی شناخت کے خدوخال مٹنے لگتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہم اپنی اصل بصیرت کھو دیتے ہیں اور دوسروں کے نظریات کی قید میں جکڑ جاتے ہیں۔ خود آگاہی کا سفر اسی قید سے آزادی حاصل کرنے کا عمل ہے، جہاں انسان اپنی آنکھوں سے دیکھنے، اپنے دل سے محسوس کرنے اور اپنے دماغ سے سوچنے کی صلاحیت واپس حاصل کرتا ہے۔
انسانی فطرت میں یہ خواہش شامل ہے کہ وہ دوسروں کی تائید حاصل کرے، ان کے خیالات کو اپنائے، اور ان کی پسند کے مطابق زندگی گزارے۔ مگر یہی خواہش ایک فریب بن جاتی ہے، جو ہماری اپنی بصیرت کو دھندلا کر دیتی ہے۔
جب ہم دوسروں کے معیار کو اپنی زندگی کا پیمانہ بنا لیتے ہیں، تو ہماری اپنی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں۔ وہ محض دوسروں کے نظریات کی عکاس بن جاتی ہیں، اور ہم اپنی ذات کی گہرائیوں کو دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہماری زندگی ایک پرچھائیں بن جاتی ہے۔۔۔دوسروں کے خوابوں، خواہشوں اور فیصلوں کی محض ایک بازگشت۔ ہماری آنکھیں جو کبھی ہمیں زندگی کے منفرد رنگ دکھاتی تھیں، اب بے کار ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ عطیہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتیں، کیونکہ انہیں دیکھنے کی عادت ہی نہیں رہتی۔
خود آگاہی کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کو دوبارہ دیکھنے کی عادت دیں، اپنی بصیرت کو دوبارہ زندہ کریں، اور اپنی سوچ کو آزاد کریں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہم اپنی ذات کے نہاں خانوں میں جھانکتے ہیں، اپنے اندر چھپے خوف، خواہشات، اور خوابوں کو پہچانتے ہیں۔ یہ بصیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم زندگی کو اپنے منفرد زاویے سے دیکھیں، اور اپنی ذات کی تکمیل کے سفر پر گامزن ہوں۔
اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دوسروں کے تجربات کو رد کریں، بلکہ یہ کہ ہم انہیں سنجیدگی سے سنیں مگر اپنے فیصلے خود کریں۔ یہ خود اعتمادی کا وہ مظہر ہے جو ہمیں خودمختار بناتا ہے اور ہمیں دوسروں کے اثر سے آزاد کرتا ہے۔
آنکھیں محض دیکھنے کا ذریعہ نہیں بلکہ بصیرت کی علامت بھی ہیں۔ اگر ہم انہیں دوسروں کے نظریات کا غلام بنا دیں تو وہ اپنی اصل حیثیت کھو دیتی ہیں۔ وہ کسی دوسرے کے کام بھی نہیں آ سکتیں، کیونکہ ان میں دیکھنے کی حقیقی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔
لہٰذا اپنی آنکھوں کو دوبارہ دیکھنے کی عادت دینا، دراصل بصارت سے بصیرت تک کا سفر ہے۔ یہ سفر ہمیں ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے، جہاں ہم اپنے وجود کے حقیقی معنی دریافت کرتے ہیں۔
یہ کائناتی سچائی ہے کہ ہر انسان کی نظر منفرد ہے۔ ہر آنکھ ایک الگ کہانی دیکھتی ہے، ہر دل ایک مختلف جذبہ محسوس کرتا ہے، اور ہر دماغ ایک منفرد خیال جنم دیتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں تو ہم اپنی اس انفرادیت کو کھو دیتے ہیں۔
اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہمیں اس آفاقی حقیقت کا حصہ بناتا ہے کہ زندگی کا حسن اسی تنوع میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا چاہیے، مگر اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔
زندگی ایک مسلسل خود آگاہی کا سفر ہے، جہاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جو ہمیں خودشناسی، خود اعتمادی، اور حقیقی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔
اپنی آنکھوں سے دیکھنا ایک فلسفیانہ دعوت ہے کہ ہم اپنی ذات کی گہرائیوں میں جھانکیں، اپنے وجود کو دریافت کریں، اور دنیا کو اپنے منفرد انداز میں دیکھیں۔
یہی ہے زندگی کا اصل فلسفہ—جہاں ہم خود کو کھونے کے بجائے دریافت کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی طاقت کو لافانی بنا دیتے ہیں۔