(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
ہر چٹان میں ایک کہانی چھپی ہوتی ہے۔۔۔۔ایک ایسا راز جو صرف مجسمہ ساز کی نگاہوں میں جھلکتا ہے۔ وہ پتھر جو کسی کے لیے ایک بے جان، کھردری چٹان ہے، مجسمہ ساز کے لیے دیوتا کی خوابیدہ شکل رکھتا ہے۔ مگر یہ خواب حقیقت میں ڈھلنے سے پہلے تیشے کی ضربیں مانگتا ہے اور تخیل کی سرگوشیاں سنتا ہے۔ یہ محض ایک فنی عمل نہیں بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ تجربہ ہے جو تخلیق کار کو زندگی، تقدیر، اور شناخت کے نئے مفاہیم سکھاتا ہے۔
جب مجسمہ ساز تیشہ اٹھاتا ہے تو وہ صرف پتھر نہیں تراش رہا ہوتا بلکہ اپنی روح کا حصہ بھی اس میں منتقل کر رہا ہوتا ہے۔ ہر ضرب میں اس کی ذات کا ایک ٹکڑا
چھُپ جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب تخلیق کار اپنی ہستی کو تخلیق میں فنا کر کے لافانی ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک اہم فلسفیانہ سوال جنم لیتا ہے: کیا تخلیق کار اپنی تخلیق کے بغیر کوئی حیثیت رکھتا ہے؟ یا وہ اپنے فن میں فنا ہو کر وقت سے ماورا ہو جاتا ہے؟
جب پتھر دیوتا کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو تخلیق کار کے لیے حالات بدل جاتے ہیں۔ وہی پتھر جو کبھی اس کے تیشے کی ضربیں محسوس کرتا تھا، اب مقدس ہو چکا ہے۔۔۔ایسا مقدس کہ فنکار کے لیے اسے چھونا بھی ممنوع قرار پا جاتا ہے۔ تخلیق کار جو کبھی مالک تھا، اب تماشائی بن جاتا ہے۔ یہی تخلیق کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ تخلیق خود اپنے تخلیق کار سے آزاد ہو کر اس پر حکمرانی کرنے لگتی ہے۔
دیوتا کی پوجا شروع ہو جاتی ہے، مگر مجسمہ ساز گمنامی میں کھو جاتا ہے۔ سماج تخلیق کو سراہتا ہے مگر تخلیق کار کو بھلا دیتا ہے۔ یہ صورتحال صرف ایک فنکار کی کہانی نہیں بلکہ ہر تخلیق کار کا نوحہ ہے۔ کیا سماج تخلیق کار کا احسان مند ہوتا ہے؟ کیا سماج تخلیق کا قدردان ہوتا ہے یا اسے اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے؟
یہ سوال ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
مگر یہاں ایک گہرا راز چھپا ہے: فنکار واقعی فنا ہو جاتا ہے یا اس کی ذات اس کے فن میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے؟ شاید مجسمہ ساز کا سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ اس نے دیوتا تخلیق کر دیا۔۔۔ایک ایسی شے جو وقت، زوال اور فنا سے ماورا ہو چکی ہے۔ یہ تخلیق ہی فنکار کو لافانی بناتی ہے۔
پتھر سے خدا تک کا سفر دراصل فنکار کے وجود، شناخت، اور لافانیت کی تلاش کا سفر ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر تخلیق کار ایک مجسمہ ساز ہے جو نہ صرف پتھر بلکہ وقت اور تقدیر کو بھی تراشتا ہے۔ اور اگرچہ سماج اسے اچھوت بنا دیتا ہے، مگر اس کی تخلیق ہمیشہ اس کی گواہی دیتی ہے۔
لہٰذا، یہ نوحہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے کہ ہم فنکاروں کو وہ مقام دیں جس کے وہ حقدار ہیں، کیونکہ وہ صرف اپنے وقت کے نہیں بلکہ ابدیت کے معمار ہیں۔