(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی کی اس وسیع کائنات میں انسان کی سب سے بڑی دریافت خود اُس کا اپنا شعور ہے۔ اس شعور کی پرورش کے لیے مطالعہ وہ سفینہ ہے جو ہمیں فکری کہکشاؤں کی بے کراں وسعتوں میں لے جاتا ہے۔ مطالعہ صرف کتابوں کے صفحات پلٹنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فکری سفر ہے جہاں ہر لفظ ایک ستارہ اور ہر سطر ایک نئی کہکشاں کی جھلک ہوتی ہے۔
مطالعہ کی ابتدا گویا پہلی کرن کی مانند ہوتی ہے جو ذہن کی تاریکی کو روشنی میں بدل دیتی ہے۔ یہ ہمیں اس مقام پر لے آتا ہے جہاں ہم محض دیکھنے والے نہیں رہتے بلکہ سمجھنے والے بن جاتے ہیں۔ یوں مطالعہ شعور کو اُس آئینے میں بدل دیتا ہے جس میں ہم اپنی ذات کے پوشیدہ گوشوں کو دریافت کرتے ہیں۔
جیسے درخت جڑوں سے زمین کی توانائی حاصل کرتا ہے، ویسے ہی مطالعہ انسان کے وجود کو فکری غذا فراہم کرتا ہے۔ اس عمل میں کتاب محض ایک وسیلہ ہے؛ اصل تجربہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک جملہ ہمارے اندر کسی خوابیدہ خیال کو بیدار کرتا ہے، جب کسی کہانی کا کردار ہمارے وجود کا عکس بن جاتا ہے، اور جب کسی خیال کی گونج ہماری خاموشیوں میں نغمہ بن کر گونجتی ہے۔
مطالعہ تخلیق کا راز بھی ہے اور تخریب کا علاج بھی۔ یہ وہ چشمہ ہے جہاں سے خیالات کا پانی ہمیشہ رواں رہتا ہے۔ جب انسان مطالعہ کرتا ہے تو گویا وہ اُس مٹی کی کھوج میں نکلتا ہے جہاں نئے خیالات کے بیج بونے ہیں۔ یہ بیج وقت کے ساتھ تناور درخت بن جاتے ہیں جو نئی نسلوں کو چھاؤں اور سمت فراہم کرتے ہیں۔
مطالعہ صرف سوالات کے جواب نہیں دیتا بلکہ ہمیں نئے سوالات کی جستجو میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی حکمت سوال کرنا ہے، جاننا نہیں بلکہ جاننے کی جستجو میں رہنا ہے۔ جب ہم پڑھتے ہیں تو گویا ہم کائنات کے اُس راز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر لمحے بدلتا رہتا ہے۔
لہٰذا، مطالعہ محض ایک عادت نہیں بلکہ زندگی کو شعور کے رنگوں میں رنگنے کا عمل ہے۔ یہ اُس چراغ کی مانند ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی ذات اور کائنات دونوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہر کتاب ایک نئی کہانی ہے، ہر لفظ ایک نیا راز، اور ہر قاری ایک نیا مسافر۔ تو آئیے، اس فکری کہکشاں کی سیر کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں تاکہ ہماری روح ہمیشہ روشنی میں رہے۔