غریب الوطنی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

غریب الوطنی محض سرزمین چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا زخم ہے جو انسان کے وجود کی گہرائیوں میں تحلیل ہو کر اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ خوابوں کی منڈی میں شناخت کے سودے کا عمل ہے، اپنی جڑوں کو کاٹ کر اجنبی زمین پر کھڑے ہونے کی کوشش کا وہ کرب ہے جو کبھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ یہ وہ سفر ہے جو بظاہر روشنی کی سمت معلوم ہوتا ہے، لیکن ہر قدم کے ساتھ انسان اپنے ماضی کی تاریکی کے جال میں اور الجھتا چلا جاتا ہے۔
جب کوئی اپنے گھر کی دہلیز چھوڑتا ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہجرت ایک جغرافیائی تبدیلی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہجرت ایک ایسے دروازے کی طرف پیش قدمی ہے جو پیچھے مڑنے کے ہر امکان کو بند کر دیتا ہے۔ یہ جدائی محض زمین اور مکان کی نہیں، بلکہ اپنے وجود کی بنیادوں، اپنی شناخت کے سرسبز میدانوں اور یادوں کے مہکتے باغوں سے ہوتی ہے۔ اجنبی دیس کے برفیلے لمس میں زندگی کی گرمی تحلیل ہو جاتی ہے، اور معنی کی خوشبو دھیرے دھیرے معدوم ہونے لگتی ہے۔

غریب الوطنی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ انسان اپنی زمین چھوڑ دیتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کی زمین اس کے وجود کا حصہ رہتے ہوئے بھی اس کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے۔

اپنی جنم بھومی کی گلیاں، محبت سے مہکتی فضائیں، اور اپنی شناخت کی نرم چھاؤں، سب دھند کی طرح تحلیل ہو جاتی ہیں۔ انسان اپنی نئی منزل پر جتنا قدم جماتا ہے، اتنا ہی اپنی جڑوں کے لمس کو کھو دیتا ہے، اور اپنی پہچان کے نقوش دھندلا پڑنے لگتے ہیں۔
یہ وہ کیفیت ہے جب آئینہ حقیقت کے بجائے ایک دھندلا عکس دکھانے لگتا ہے۔ وہ چہرہ، جو کبھی خوابوں کا مرکز تھا، اجنبیت کی بے رنگ تصویر بن جاتا ہے۔ وہ آنکھیں، جو امیدوں سے لبریز تھیں، اب گہرے خلا کی نمائندہ بن جاتی ہیں۔ زبان، جو کبھی اپنے لہجے کی شناخت تھی، اجنبی الفاظ کے بوجھ تلے دب کر اپنی روح کھو دیتی ہے۔

غریب الوطنی محض ایک زمینی جدائی نہیں؛ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو انسان کو اپنی جڑوں، اپنی یادوں، اور اپنی پہچان کے خلاف لڑنی پڑتی ہے۔ ہر دن اجنبیت کا نیا سامنا، ہر لمحہ اپنی اصل سے ایک نادیدہ جدائی۔ انسان اپنے اندرونی وجود کے ملبے پر ایک ایسی شناخت تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کی اپنی نہیں ہوتی۔

یہ جدوجہد اُس وقت المیے کا روپ اختیار کر لیتی ہے جب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سرزمین پر کھڑا ہے جہاں اس کے قدموں کا کوئی نشان نہیں بنتا۔ وہ ایک خلا میں لٹک جاتا ہے، جہاں اس کے پاس صرف اپنے ماضی کی گونج اور اپنی یادوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ وہ اپنے وجود پر نظر ڈالتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے کندھوں پر اس کی اپنی شناخت کی لاش رکھی ہوئی ہے۔ وہی شناخت، جو کبھی اس کے وجود کی بنیاد تھی، جو اس کے خوابوں کی تعبیر تھی، آج محض ایک بے جان یاد بن چکی ہے۔ وہ اپنی امیدوں کی مٹی میں دفن ہو چکی ہے، اور وہ خود ایک خاموش ماتم کے ساتھ اس لاش کو کندھوں پر اٹھائے زندگی کے سفر پر چلتا رہتا ہے۔

غریب الوطنی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کو صرف سرزمین سے جدا نہیں کرتی، بلکہ اس کے اندر کی کربناک خلش ، اس کے وجود کی گہرائیوں کو بھی خالی کر دیتی ہے۔ یہی اس کا سچ ہے: اپنی شناخت کو کھونا، اور اس کی لاش کو زندگی بھر کندھوں پر اٹھائے پھرنا۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top