شور کے پار

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

سکون کا سفر

زندگی ایک بے قابو گھوڑے کی مانند ہے، جسے ہم لگام دینے کی کوشش میں خود تھک جاتے ہیں۔ کامیابی، شہرت اور طاقت کے سراب ہمیں ریگزار کی طرح دوڑاتے ہیں، جہاں ہر قدم پر سکون کی پیاسی روح مزید بھٹکتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کا یہ سفر بظاہر چمکتا دمکتا ہے، لیکن حقیقت میں ہماری ذات کی گمشدگی کی ایک المناک داستان بن جاتا ہے۔

ہم اس دوڑ میں اپنے دل کی دھڑکن کو شور میں بدل دیتے ہیں، خوابوں کو فائلوں میں دفن کر دیتے ہیں، اور خوشبوؤں سے بھرے لمحوں کو وقت کی دھول میں اڑا دیتے ہیں۔ کامیابی کے تاج کا بوجھ ہمارے سکون کو روند دیتا ہے۔ یہ ایسا سودا ہے جہاں سکون بیچ کر بے چینی خریدی جاتی ہے۔
لیکن زندگی کے اس ہنگامے میں کہیں ایک ایسا لمحہ بھی چھپا ہوتا ہے جو ہمیں سرگوشی کرتا ہے کہ “خاموش ہو جاؤ، رک جاؤ، سنو۔” یہ وہ لمحہ ہے جب فطرت کا پرسکون سناٹا ہماری روح کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔

درختوں کی سرگوشیاں، پانی کی مدھم گنگناہٹ، اور ہوا کی نرم چادر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سکون کا راستہ سادگی سے ہو کر گزرتا ہے۔

خاموشی دراصل زندگی کا وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اصل صورت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں ہماری حقیقی شناخت سے روشناس کرواتی ہے، ہمیں بتاتی ہے کہ خوشی ان لمحوں میں چھپی ہے جو بظاہر معمولی نظر آتے ہیں لیکن اپنی گہرائی میں زندگی کی اصل معنویت رکھتے ہیں۔

جب ہم اپنی ذات کی دھیمی سرگوشی سننے لگتے ہیں تو سکون کی دولت ہماری جھولی میں آ گرتی ہے۔ یہ سکون ہمیں خاندان کے ساتھ قیمتی لمحے جینے کا ہنر سکھاتا ہے، ہمیں فطرت کے رنگوں میں مسرت تلاش کرنے کا راز دیتا ہے، اور ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی اصل چمک اندر کی روشنی میں پوشیدہ ہے، نہ کہ باہر کے شور و ہنگامے میں۔

کامیابی کی سرگوشی عارضی ہوتی ہے، لیکن سکون کا نغمہ ابدی۔ یہ وہ خزانہ ہے جو نہ بازار میں بکتا ہے نہ محلوں میں ملتا ہے۔ یہ صرف اندر کے سفر میں دریافت ہوتا ہے، جب ہم اپنی خواہشات کے شور کو خاموشی کے کنول میں بدل دیتے ہیں۔

آئیے اس فلسفے کو زندگی کا حصہ بنائیں، آئیے سکون کی دولت کو گلے لگائیں۔ کیونکہ جو انسان خاموشی کے معنی سمجھ جاتا ہے، وہی درحقیقت زندگی کے راز سے آشنا ہوتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top