(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
ایک شناختی بحران
کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کا جوہری مسئلہ درحقیقت ایک شناختی المیہ ہے، جو ہمارے قومی تشخص کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے؟
ایک تجزیاتی جائزہ
پاکستان کا قیام ایک عظیم مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا، جس میں مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست میں اپنی مذہبی، ثقافتی، اور لسانی شناخت کو قائم رکھنے کی آزادی ملنی تھی۔ لیکن گزشتہ دہائیوں میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان، خصوصاً مسلم پنجاب، ایک پیچیدہ شناختی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بحران فرد کی شناخت تک محدود نہیں بلکہ سماجی، سیاسی، اور ثقافتی سطح پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو ایک ایسی ریاست فراہم کرنا تھا جہاں وہ اپنی مذہبی، ثقافتی، اور لسانی شناخت کو آزادی سے قائم رکھ سکیں۔ تاہم، اس مقصد کی تکمیل کے دوران مختلف داخلی اور خارجی عوامل نے پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو پیچیدہ بنا دیا۔ تقسیم کے بعد نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کو ایک نیا سیاسی اور ثقافتی چیلنج درپیش تھا، جو ایک خاص قومی شناخت کی تشکیل میں رکاوٹ بنا۔
1947 کی تقسیم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست تو فراہم کی، لیکن اس کے ساتھ ہی پنجاب کے مسلمانوں کو ایک نئی شناختی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔ پنجاب، جو صدیوں سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ تھا، اب مسلم شناخت کے تحت ڈھالا جانے لگا۔ تقسیم نے پنجاب کے مسلمانوں کو اپنی صدیوں پرانی تہذیب، زبان، اور ثقافت سے دور کر دیا، جس کے نتیجے میں مقامی ثقافتیں اور روایات پس منظر میں چلی گئیں۔
پاکستان کی بنیاد “مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن” کے اصول پر رکھی گئی، لیکن قیام پاکستان کے بعد ریاستی حکمتِ عملی نے قومی تشخص کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ اس نے ملک کی مختلف لسانی اور ثقافتی شناختوں کو نظرانداز کیا اور اردو کو قومی زبان کے طور پر مسلط کر دیا، حالانکہ یہ اکثریت کی مادری زبان نہ تھی۔ پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی زبانوں کو سیاسی اور ثقافتی سطح پر نظرانداز کیا گیا، جس سے مقامی لوگوں میں احساسِ کمتری پیدا ہوا۔ اپنی زبان سے دوری اور اردو کو اختیار کرنے کے عمل نے نہ صرف پنجاب کی ثقافت بلکہ پورے پاکستان کے لسانی تنوع کو نقصان پہنچایا۔
جنوبی پنجاب کے سرائیکی عوام اپنی الگ ثقافتی اور لسانی شناخت کے لیے عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے اس مطالبے کو قومی دھارے میں شامل نہ کرنا اور نظرانداز کرنا ان کے احساسِ محرومی کو مزید گہرا کرتا جا رہا ہے۔ سرائیکی عوام نہ صرف اپنی زبان بلکہ اپنی ثقافتی خودمختاری کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، اور یہ شناختی کشمکش پاکستان کے داخلی سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر سنگین اثرات ڈال رہی ہے۔
سرائیکی خطہ، جو تاریخی طور پر پنجاب کے جنوبی حصے میں ایک الگ ثقافت اور زبان کا حامل ہے، تقسیم کے بعد مسلسل نظرانداز ہوا ہے۔ اس خطے کے لوگ اپنی الگ ثقافتی اور انتظامی شناخت کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، جسے قومی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان میں موجود مذہبی فرقہ واریت نے قومی یکجہتی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اور دیگر فرقوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تضادات نے ملک میں اتحاد کے بجائے تقسیم کو فروغ دیا ہے۔ ہر فرقہ اپنی الگ شناخت اور فوقیت کا دعویٰ کرتا ہے، جس سے مسلم قومی تشخص کے اندرونی تضادات اور زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال قومی یکجہتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور شناختی بحران کو مزید گہرا کرتی ہے۔
مذہبی فرقہ واریت نے قومی ہم آہنگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان نظریاتی اختلافات نے معاشرے میں عدم برداشت کو جنم دیا، جس سے قومی شناخت مزید مجروح ہوئی۔
پاکستان کا جوہری مسئلہ درحقیقت اس شناختی بحران کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ریاستی حکمت عملی نے ہمیشہ ایک جامع قومی شناخت کی تشکیل کے بجائے محدود مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں پر زور دیا۔ مختلف ثقافتی، لسانی، اور مذہبی گروہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ریاستی سطح پر ان اختلافات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ یہ داخلی شناختی تذبذب پاکستان کو اس بحران میں دھکیل رہا ہے، جہاں قومی یکجہتی کے بجائے تقسیم کا عمل تیز ہو رہا ہے۔
پاکستان اور خصوصاً مسلم پنجاب کا شناختی المیہ ایک گہرے بحران کی صورت میں موجود ہے، جس کا تعلق تقسیم کے اثرات، قومی تشخص، لسانی بحران، اور مذہبی فرقہ واریت سے ہے۔ یہ بحران صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب ہم پاکستان کی متنوع ثقافتوں، زبانوں، اور تاریخی ورثے کو تسلیم کریں اور ایک جامع قومی شناخت تشکیل دیں۔
پاکستان کا شناختی بحران اس کی بنیادوں میں چھپے جوہری مسائل کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مختلف لسانی، مذہبی، اور ثقافتی عناصر ریاستی پالیسیوں کی نظرانداز شدہ ترجیحات کی زد میں ہیں۔ ان تضادات کو حل کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جو ملک کی تنوع کو تسلیم کرے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا جوہری مسئلہ، حقیقت میں، ایک شناختی المیہ ہے۔ اس المیے سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کو اپنائیں، اور ایک ایسی ریاست بنائیں جو اپنے ہر شہری، اس کی زبان، مذہب، اور ثقافت کو مساوی حیثیت دے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں قومی یکجہتی کی طرف لے جا سکتا ہے۔