(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
وقت، جو خود ایک سراب ہے، مگر انسان کو اس کی پیاس میں ہمیشہ قید رکھتا ہے۔ وہ ایک بہتا ہوا سایہ ہے، جو ہاتھ بڑھانے پر مٹھی سے ریت کی مانند پھسل جاتا ہے، مگر اس کے گزرنے کا احساس روح پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ کچھ لوگ عمر کو ایک ہجرت سمجھ کر وقت کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ اصل زوال جسم کی جھریوں میں نہیں، بلکہ دل کی ویرانی میں ہوتا ہے۔
محبت وہ ازلی چراغ ہے، جو وقت کے اندھیروں کو چیر کر ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ یہ نہ دن کی قید میں ہے، نہ رات کی، نہ جوانی کی حدوں میں بندھی ہے، نہ بڑھاپے کی زنجیروں میں گرفتار۔ یہ وہ صدا ہے جو ازل کے سینے میں گونجی اور ابد کے کنارے تک سفر کرے گی ، وہ پہلی روشنی جو کائنات کے وجود میں آتے ہی چمکی، اور وہ آخری آگ جو وقت کے زوال کے بعد بھی بجھنے سے انکار کرے گی۔
حقیقی بڑھاپا وہ نہیں جو چہرے پر جُھریاں بکھیر دے یا بالوں کو چاندی میں بدل دے، بلکہ وہ ہے جو دل کی دھڑکنوں سے محبت کی صدا چھین لے۔ وہ لمحہ جب انسان محبت کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے، وہی اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔ جسم تو ایک پیراہن ہے، جو وقت کے دھوئیں میں تحلیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے ، مگر محبت وہ روحانی بہار ہے جو خزاؤں کے سنگ بھی اپنی تازگی برقرار رکھتی ہے۔
زندگی ایک ندی کی مانند ہے، جس کے کنارے بدلتے رہتے ہیں، مگر اس کا بہاؤ کبھی نہیں رکنا چاہیے۔
محبت وہی بہاؤ ہے جو اس ندی کو جمود سے بچاتا ہے۔ اگر یہ بہاؤ رک جائے تو پانی جو کبھی زندگی تھا، وہی بدبو دار جوہڑ میں بدل جاتا ہے۔ محبت اگر دل میں باقی رہے، تو انسان وقت کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر بھی اپنی نرمی اور تازگی برقرار رکھتا ہے۔ مگر جہاں محبت دم توڑ جائے، وہاں وقت اپنی سنگینی سے انسان کے اندر کی زمین کو بنجر کر دیتا ہے۔
درخت جتنا بھی قد آور ہو، اگر جڑوں میں پانی کا بہاؤ نہ ہو، تو اس کی ہریالی محض ایک عارضی فریب رہ جاتی ہے۔ اگر انسان محبت سے خالی ہو جائے، تو اس کا وجود خواہ کتنی ہی جوانی کی خوشبو سے معطر ہو، اندر سے روح کی خشکی اسے سوکھا دیتی ہے، محبت کسی جسمانی کشش کا نام نہیں، یہ وہ روحانی الہام ہے جو وقت کے پردے چاک کر کے انسان کو دائمی تازگی عطا کرتا ہے۔ جو محبت کے راز کو پالیتا ہے، وہ وقت کے ہر زخم کو محبت کے امرت سے مندمل کر لیتا ہے۔ وہ لوگ جو محبت کو جوانی کی حدوں میں مقید سمجھتے ہیں، وہ دراصل اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ محبت تو وہ واحد شے ہے جو زمان و مکان کی سرحدوں سے آزاد ہے۔
محبت آفتاب کی کرن کی مانند ہے جو ہر روز نئے زاویے سے زمین پر اترتی ہے، مگر اپنی اصل چمک نہیں کھوتی۔ وہ سمندر کی مانند ہے، جو ساحلوں سے ٹکرا کر بھی اپنی وسعتوں میں کمی نہیں آنے دیتا۔ یہ بادل کی طرح ہے، جو اپنی ذات کی تپش میں منتشر ہو کر زمین کو سیراب کرتا ہے اور پھر اپنی فنا میں از سر نو جنم پاتا ہے۔ محبت وہ آگ ہے جو جلتی ہے، مگر نہ راکھ ہوتی ہے، نہ مٹتی ہے؛ یہ وہ لافانی شعلہ ہے جو ہر جلن کے بعد مزید بڑھتا ہے، جیسے ہر قیامت کے بعد ایک نئی تخلیق کا آغاز ہو۔ یہ صرف راکھ نہیں بنتی، بلکہ اپنی تپش میں کندن بن کر نکھرتی ہے اور ہمیشہ کے لیے وقت کے ہر وار کو جیت لیتی ہے۔
اگر تم واقعی زندگی کے راز کو پانا چاہتے ہو، تو محبت کو اپنی روح کا حصہ بنا لو۔ کیونکہ محبت کرنے والا نہ کبھی وقت کے ہاتھوں شکست کھاتا ہے اور نہ ہی کبھی بوڑھا ہوتا ہے۔ وہ ازل کے اس چراغ کی مانند ہوتا ہے جو ہر شبِ تاریک میں روشنی بکھیرتا ہے اور ہر گزرتے لمحے کو جاوداں کر دیتا ہے۔