باپ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

!بیٹی کی سہیلی، زندگی کی ڈھال

یہ ایک عام سی شام تھی، مگر میرے دل میں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ میری بیٹی، جو اب جوان ہو چکی ہے، آج میرے پاس آئی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، “بابا، میں ہر بات آپ سے نہیں کہہ پاتی، لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ دنیا میں میرا سب سے بڑا سہارا آپ ہیں۔
اس کے یہ الفاظ سن کر میرے دل میں یادوں کے دریچے کھل گئے۔ وہ لمحے تازہ ہو گئے جب وہ ننھے قدموں سے چلتی ہوئی میرے پاس آتی اور بس میری انگلی تھام لینا ہی اس کی سب سے بڑی تسلی ہوتی۔ جب اس کی سب سے بڑی پریشانی صرف اتنی ہوتی تھی کہ کہیں اس کی گڑیا کھو نہ جائے۔ تب میں اس کے لیے بس ایک باپ نہیں، بلکہ اس کی دنیا کا سب سے محفوظ گوشہ تھا۔ آج بھی، برسوں بعد، اس کے لہجے میں وہی معصومیت اور اعتماد تھا، جیسے بچپن میں میری انگلی تھام کر دنیا کے ہر خوف سے بےنیاز ہو جاتی تھی۔
باپ اور بیٹی کا رشتہ کسی پہیلی کی طرح ہوتا ہے کبھی ہنسی میں لپٹا، کبھی آنسو میں گھلا، اور کبھی خاموش محبت میں بسا۔ یہ محبت لفظوں سے زیادہ ان لمحوں میں چھپی ہوتی ہے جب باپ اپنی بیٹی کے لیے رات گئے جاگتا ہے، جب وہ اس کے خوابوں کو اپنی حقیقت بنا کر جیتا ہے، جب وہ اپنی ہر خواہش کو پسِ پشت ڈال کر صرف اس کے مسکرانے کے لیے جیتا ہے۔

بیٹی کے لیے باپ ایک سائبان ہوتا ہے، ایک روشنی کا مینار، ایک ایسا مسافر جو کبھی اپنی منزل کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ صرف اس کی منزل کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ باپ کی محبت ندی کی اس روانی کی طرح ہوتی ہے جو خاموشی سے بہتی ہے، مگر اپنے کناروں کو ہمیشہ سرسبز رکھتی ہے۔

کبھی کبھار زندگی کے سفر میں بیٹیاں بڑی ہو کر کسی اور کے گھر چلی جاتی ہیں، مگر باپ کی دعائیں، اس کا تحفظ، اس کی فکر کبھی پیچھے نہیں رہتی۔ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے، چاہے وہ کسی بھی کونے میں ہو، کسی بھی حال میں ہو۔

آخر میں، ایک باپ کے جذبات بس اتنے ہیں کہ بیٹیاں جتنی بھی بڑی ہو جائیں، وہ ان کے لیے ہمیشہ وہی بچپن کی سہیلی رہیں گی، وہی ننھی سی پری، جو ایک دن اس کے کندھے پر سر رکھ کر کہتی تھی:
“!بابا، آپ میرے سب سے اچھے دوست ہیں”

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top