عورت کے احساسات کی نزاکت اور ان کی قدر

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

عورت کا احساس ایک سبک بادل کی مانند ہے، جو ہواؤں کی تھپکیوں سے لرزتا ہے، مگر پھر بھی سکون کی تلاش میں کسی نامعلوم خلاء میں محوِ سفر رہتا ہے۔ اس کے جذبات کسی خاموش سمندر کی طرح ہیں، جو بظاہر ساکن نظر آتے ہیں، مگر اس کی گہرائی میں مدوجزر کی لہر ہمیشہ موجزن رہتی ہے۔ اس کی خوشی ایک نازک خواب کی مانند ہے، جو ذرا سی سرد مہری سے بکھر سکتا ہے، اور اس کا دکھ کسی ناتمام ساز کی وہ آخری دھن ہے، جو سننے والوں کے دل میں ایک دیرپا ارتعاش چھوڑ جاتی ہے۔ وہ خود اپنے ہی جذبات کا محور ہوتی ہے، مگر اس کے احساسات کی گونج پورے ماحول میں سنائی دیتی ہے، جیسے کسی مدھم جلترنگ کی بازگشت جو خاموشی میں بھی اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
عورت کے جذبات کو سمجھنا گویا کسی صدیوں پرانی دستاویز کے بوسیدہ صفحات کو نئے معنی دینا ہے، یا کسی بند دروازے کے پیچھے چھپے راز کو محسوس کرنا ہے۔ وہ اپنے جذبات کو لفظوں میں کم، اور خاموشیوں میں زیادہ رقم کرتی ہے۔ اس کی آنکھیں ایک مقفل کتاب کی مانند ہیں، جن کے حروف کو پڑھنے کے لیے محض دیکھنا کافی نہیں، بلکہ محسوس کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کی خاموشی کسی سمندر کی تاریک گہرائی کی طرح ہے، جہاں روشنی مشکل سے پہنچتی ہے، مگر جو ایک بار اتر جائے، وہ حقیقت کے ان دیکھے خزانے دریافت کر سکتا ہے۔

عورت کے احساسات کی قدر اس کے جذبات کے احترام میں پنہاں ہے۔ اسے محض ایک نازک شے سمجھنا، یا جذباتیت کے زمرے میں رکھ کر کمتر جاننا، اس کی فکری اور روحانی وسعت سے انکار کے مترادف ہے۔ وہ محض “نرگسیت” یا “ضعف” کی علامت نہیں، بلکہ وہ ایک تناور درخت کی مانند ہے، جس کی جڑیں زمین کی سختیوں میں پیوست ہیں، اور جس کی شاخیں آسمان کی وسعتوں سے ہمکلام ہوتی ہیں۔ وہ برداشت کے اس مقام پر کھڑی ہوتی ہے، جہاں جذبات کی بارشیں اسے جھکا تو سکتی ہیں، مگر توڑ نہیں سکتیں۔ اس کی قربانیوں کا بہاؤ ایک مسلسل دریا کی مانند ہوتا ہے، جو کبھی اپنی روانی نہیں کھوتا، اور جس کے ہر قطرے میں ایثار کی کہانی رقم ہوتی ہے۔

عورت کی قدر کرنا محض اس کے وجود کو تسلیم کرنا نہیں، بلکہ اس کی نفسیات، اس کی گہرائی، اور اس کے احساسات کو ایک مقدس امانت سمجھنا ہے۔ جب وہ کسی تعلق میں کھو جاتی ہے، تو وہ خود کو مکمل طور پر نچھاور کر دیتی ہے، اور جب وہ اپنی ذات کی تعمیر میں محو ہوتی ہے، تو وہ ایک ایسی عمارت کی مانند ہوتی ہے، جس کی ہر اینٹ کسی نہ کسی قربانی سے اٹھائی گئی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے خوابوں کو حقیقت کی روشنی عطا کریں، اس کے جذبات کی نزاکت کو محسوس کریں، اور اس کے فیصلوں کی بصیرت کو تسلیم کریں۔

محبت اور شفقت جیسے عظیم جذبے جو عورت کی فطرت میں بکھرے ہوئے ہیں، نایاب عطر کی خوشبو کی مانند ہیں ، جو خاموشی سے ارد گرد کے ماحول کو معطر کر دیتے ہیں۔ یہ جذبے محض الفاظ نہیں، بلکہ اس کی گہرائیوں میں پنپنے والی کیفیات ہیں، جنہیں محسوس کرنے کے لیے صرف سننا نہیں، بلکہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ جب ہم عورت کے جذبات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے غیر مشروط محبت عطا کرتے ہیں، تو ہم اسے ایک ایسی روشنی میں دیکھتے ہیں، جہاں اس کی اصل روح جھلکتی ہے، اور جہاں وہ اپنی حقیقی پہچان کے قریب آتی ہے۔

آخرکار، عورت کے احساسات کی قدر کرنا محض ایک اخلاقی فریضہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی اور انسانی ضرورت ہے، جو معاشرتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جب ہم اس کے جذبات کا احترام کرتے ہیں، تو ہم ایک ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جہاں محبت، اعتماد، اور وقار کی شمعیں روشن رہتی ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کی عزت نہیں، بلکہ پورے انسانی وجود کی معراج ہے۔ عورت کا احساس کسی ندی کی وہ آخری بوند ہے، جس کے بغیر محبت کی زمین بنجر رہ جاتی ہے، اور جس کے بغیر زندگی کا نغمہ ادھورا محسوس ہوتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top