(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
عشقِ مجازی، حقیقت میں عشقِ حقیقی کا وہ عکس ہے جو دنیا کی ظاہری چمک میں چھپ کر، دل کی گہرائیوں میں انسان کے ان اندرونی جزیروں کو دریافت کرتا ہے جنہیں وہ خود کبھی نہیں جانتا تھا۔ یہ عارضی تعلق ایک جستجو کی صورت اختیار کرتا ہے، جہاں انسان اپنے دل کی گمشدہ حقیقت کو کسی مخلوق کی صورت میں تلاش کرتا ہے، لیکن اس تلاش کی تقدیر اس کے اندر کی گمشدہ حقیقت کو کھوجنے کی ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں وہ خود کو کسی دوسرے میں گم کر کے اپنے اندر کی گہرائیوں کو دریافت کرتا ہے۔
عشقِ مجازی کی حقیقت میں صرف ایک جذبہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا شعلہ ہوتا ہے جو انسان کی روح کو جھنجھوڑ کر اسے اس کی ذات کی حقیقت تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ راز و نیاز کا تعلق اس کی ایک داخلی حقیقت سے ہے، جہاں محبوب کی یاد میں انسان اپنا وقت، اپنی ہستی اور اپنی روح کو وقف کر دیتا ہے۔ یہ قربانی صرف جسمانی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ روح کی گہرائیوں میں، اپنے نفس کی حدود سے باہر نکل کر، انسان اپنی ذات کو فنا کرتا ہے۔ یہ قربانی نہ صرف دکھاوا ہوتی ہے، بلکہ اس کا حقیقی مقصد انسان کو اس کے اندر کی حقیقت اور اس کے اصل محبوب یعنی خدا کی حقیقت کو پہچاننا ہے۔
عشقِ مجازی کی یہ حالت ایک پُل کی مانند ہوتی ہے، جو گزر کر انسان کو ایک اور حقیقت کی طرف لے جاتی ہے، جہاں وہ اپنے آپ کو کسی عالم میں نہیں بلکہ تمام عالم میں دیکھتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو اسے عشقِ حقیقی کی طرف لے جاتا ہے، جو نہ صرف ایک فرد کی اپنی حقیقت کی دریافت ہے بلکہ اس کی اس کائناتی حقیقت سے آشنائی ہے جس میں وہ محض ایک ذرہ نہیں بلکہ ایک وسیع کائنات کا حصہ بن کر دکھائی دیتا ہے۔ اس کا رشتہ اس کی ذاتی ذات سے نہیں، بلکہ کائنات کے ہر ذرے سے جڑتا ہے۔
راز و نیاز کا فلسفہ دراصل اسی سفر کا عکس ہے، جہاں انسان اپنے وجود کی ہر لذت اور تکلیف کو محبوب کے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے، اور اس گمشدہ حقیقت کو پانے کے لیے اپنی ہر شے کو قربان کرتا ہے۔ یہ ایک روحانی ارتقاء کا سفر ہے جہاں انسان خود کو فنا کرتا ہے تاکہ وہ اس کی مکمل حقیقت تک پہنچ سکے، اور دراصل یہ فنا نہیں، بلکہ حقیقت کی طرف ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔
عشقِ مجازی کا یہ منظر، ایک راستہ ہے جو انسان کو اپنی تمام حدود سے آزاد کر کے، اپنی اصل حقیقت اور محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جو عشقِ مجازی میں چھپ کر، ایک انسان کو اس کے حقیقی عشق، یعنی خدا کی طرف لے جاتا ہے، اور اس کا ہر قدم ایک نیا باب رقم کرتا ہے۔