(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
جب جیت کی روشنی افق پر چھا جاتی ہے، تو آنکھیں صرف اس کی چمک میں محو ہو جاتی ہیں۔ داد کے طبل بجتے ہیں، بہادری کے ترانے بلند ہوتے ہیں، اور دنیا فتح کے قافلے کو منزل کی جانب بڑھتا دیکھتی ہے۔ مگر اس روشنی کے عقب میں پوشیدہ تاریکی کو کوئی نہیں دیکھتا، وہ شکست کی سنسان گلیاں، خسارے کی خاموش راتیں، اور وہ لمحے جب خواب خاکستر میں بدل گئے تھے۔ فتح کی چمک کے اس منظر کے پیچھے چھپا ہر زخم، ہر آنسو اور مٹی میں دفن ہر خواب ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، جو جیت کے ہر لمحے کو ایک قیمت عطا کرتا ہے۔ مگر دنیا صرف اس چمک کو دیکھتی ہے، ان قربانیوں کے گہرے سائے کو نہیں۔
جیت کی کہانیاں خوشی کے نغمے بن جاتی ہیں، جنہیں دنیا فخر سے دہراتی ہے۔ مگر ہار کے قصے زمین کی گہرائی میں دفن ہو جاتے ہیں، بے آواز اور بے نام۔ لوگ صرف میناروں کی بلندی کو دیکھتے ہیں، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان میناروں کی بنیاد کتنے ٹوٹے خوابوں، کتنے بکھرے حوصلوں، اور کتنی شکستہ اینٹوں کی قربانی سے رکھی گئی ہے۔ اصل تعمیر وہ ہوتی ہے جو خاموش دکھوں کے عرق سے سینچی جاتی ہے، مگر دنیا صرف سطح پر ابھرتی عظمت کو دیکھنے کی عادی ہے۔
ہار اور دکھ کا تعلق زمین اور بیج کی مانند ہے، دکھ اس گہرائی کی مانند ہے جہاں بیج دفن ہوتا ہے، اور ہار اس تاریکی کی طرح جو اسے گھیر لیتی ہے۔ مگر یہی تاریکی اور گہرائی اس بیج کو وہ طاقت عطا کرتی ہے کہ وقت آنے پر وہ زمین چیر کر سبزہ بن جائے۔ انسان کی ہار بھی اسی بیج کی مانند ہوتی ہے، جو شعور کے نہاں گوشوں میں ایک پوشیدہ قوت کو پروان چڑھاتی ہے، یہاں تک کہ فتح کے لمحے میں زندگی کا نیا رنگ لے کر ابھرتی ہے۔
اسی طرح، ہر ہار انسان کے اندر ایک طاقت کو جنم دیتی ہے جس کا شعور اکثر فتح کے لمحے تک نہیں ہوتا۔ ہر زخم اپنی گمشدہ کہانی کے لیے بے تاب ہوتا ہے، ایک خاموش داستان جسے اپنی گہرائی میں سمیٹ کر وہ ہمیشہ کے لیے سنانا چاہتا ہے، مگر دنیا کے شور میں اس کی آواز مدھم پڑ جاتی ہے۔ ہر درز، ہر شکست، ایک پوشیدہ حقیقت کو چھپائے رکھتی ہے، جو اس وقت تک دریافت نہیں ہوتی جب تک کہ انسان خود اسے اپنی روح میں نہ پہچانے۔ یہ گمشدہ آوازیں کبھی نہیں مرتیں، بس وقت کی گرد میں دفن ہو کر، زندگی کی حقیقی جمالیات میں تبدیل ہو جاتی ہیں، جہاں دکھ اور ہار کی کہانیاں، جمال کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔
لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جو آج فاتح ہے، وہ کل شکست خوردہ تھا۔ اس نے راتوں کو جاگ کر اپنے خوابوں کی لاشوں کو دفن کیا تھا۔ وہ جو آج مسکراتا ہے، وہ کل اپنے ہی دکھوں کے زندان میں قید تھا۔
اصل فتح جیت میں نہیں، بلکہ ہار کے اندر چھپی اس کہانی میں ہوتی ہے جو انسان کو نہ صرف بدل دیتی ہے بلکہ نکھار دیتی ہے۔ ہار ایک گہرا راز ہے، ایک فن ہے، اور جو اسے برداشت کرکے اپنی ذات کو بلند کر لے، وہی اصل فاتح ہے۔ کیونکہ دکھ جتنا گہرا ہوتا ہے، اس سے اٹھنے والی روشنی اتنی ہی چمکدار ہوتی ہے۔