اولاد

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ذمہ داری یا ملکیت؟

والدین کے لیے اولاد کی پرورش ایک مقدس فریضہ ہے، مگر اکثر وہ انہیں اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے انہی کے نقشِ قدم پر چلیں اور انہی کے خوابوں کو جئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بچے والدین کے ذریعے اس دنیا میں آتے ہیں، مگر ان کے تابع نہیں ہوتے۔ خلیل جبران کے الفاظ ایک گہری حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ اولاد اپنی شناخت خود تراشتی ہے اور زندگی کی اپنی تمنا کے تحت پروان چڑھتی ہے۔

محبت اور رہنمائی والدین کا حق ہے، مگر اس میں گرفت کی شدت نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں کو تحفظ اور پیار دینا ضروری ہے، مگر ان کی سوچ کو قید کرنا ان کے فطری ارتقاء میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ایک آزاد فضا ہی ان کی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی اور خود اعتمادی سے اپنے راستے بنانے میں مدد دیتی ہے۔

اکثر والدین اپنی نامکمل خواہشات کی تکمیل کے لیے بچوں کو ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ ہر روح اپنی راہ آپ متعین کرتی ہے۔ضروری ہے کہ بچوں کی صلاحیتوں کو پہچانا جائے اور انہیں اپنی منزل خود چننے کا اختیار دیا جائے، بجائے اس کے کہ ان پر اپنی پسند تھوپی جائے۔

والدین اور اولاد کے تعلق کو ایک کمان اور تیر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ تیر کی رفتار اور بلندی کا انحصار کمان کی مضبوطی اور لچک پر ہوتا ہے، مگر نشانے کا تعین وہ ماہر تیرانداز کرتا ہے جو حکمتِ کائنات سے واقف ہے۔ والدین کا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی دانائی اور تجربے کی روشنی میں بچوں کو اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیں، مگر انہیں اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق اڑان بھرنے دیں۔

اولاد کی پرورش ایک مقدس ذمہ داری ہے، مگر انہیں اپنی ملکیت سمجھ لینا فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ والدین کا کمال اسی میں ہے کہ وہ ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں، مگر بچوں کی خودمختاری کا احترام بھی کریں۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے، اور حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ بچوں کو ان کے خوابوں کی تکمیل کے لیے آزاد فضا دی جائے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top