(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
ہم سب کسی نہ کسی دن کوزہ گر بنتے ہیں، مٹی کو چاک پر رکھتے ہیں، امید کے پانی سے گوندھتے ہیں، اور محبت کی انگلیوں سے اسے ایک شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر تخلیق مکمل کب ہوتی ہے؟ ہم جتنے بھی ہنر سیکھ لیں، ہماری انگلیوں کے درمیان سے کچھ نہ کچھ پھسلتا رہتا ہے— کبھی خواب، کبھی رشتے، کبھی خود ہم۔
یہ زندگی بھی ایک چاک ہے، جو مسلسل گردش میں ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ شاید ایک دن ہم کچھ ایسا تخلیق کر لیں گے جو مکمل ہوگا، جو دراڑوں سے پاک ہوگا، جو ہماری خواہشوں کی عین صورت ہوگا، مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ہر بار جب ہاتھ بڑھاتے ہیں، مٹی تھوڑی سی کم ہو جاتی ہے، خواب تھوڑے سے بکھر جاتے ہیں، اور امیدیں کچھ اور دھندلا جاتی ہیں۔ آخر میں ہاتھوں میں صرف مٹی بچتی ہے— اور آنکھوں میں وہ خواب، جو کبھی حقیقت نہ بن سکے۔
ہم مٹی کے بنے لوگ، مٹی سے چیزیں تراشنے کی خواہش میں خود کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔ ایک دن آتا ہے جب احساس ہوتا ہے کہ کوزہ گری کا اصل ہنر تو ترک میں تھا، گرفت میں نہیں۔ جو چیز جتنی مضبوطی سے تھامی جائے، اتنی ہی تیزی سے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ہم جتنی شکلیں بناتے ہیں، اتنی ہی اپنی اصل صورت کھو بیٹھتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ وقت کے چاک پر سب کچھ گھومتا ہے، سوائے ہاتھوں میں بچی ہوئی مٹی کے۔ شاید یہی ہماری اصل میراث ہے— وہ خاک جو بتاتی ہے کہ ہم نے کچھ بنانے کی کوشش کی تھی، چاہے وہ مکمل ہوا ہو یا بکھر گیا ہو۔ مگر آخر میں، ہر کوزہ گر اپنے ہی ظرف کا اسیر رہ جاتا ہے، اور ہر ہنر مند کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ مٹی باقی رہ جاتی ہے— ایک ادھورا لمس، ایک نامکمل دعا، اور ایک خاموش حقیقت کہ ہر چیز فنا کے چاک پر گھومتی ہے، مٹی سے بنتی ہے، اور مٹی میں ہی لوٹ جاتی ہے۔