ہاتھ یا حوصلہ؟

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

زندگی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ یہ کسی سہارے کی محتاج نہیں، اور نہ ہی کسی رُکے ہوئے قدم کو راستہ دیتی ہے۔ کچھ لوگ راستے میں ہاتھ تھامنے والے ڈھونڈتے ہیں، اور کچھ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر خاموشی سے چلتے رہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل طاقت ہاتھ میں نہیں، حوصلے میں ہوتی ہے۔ جو گرنے کے بعد خود کو سنبھالنا جانتے ہیں، وہی زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھتے ہیں۔

یہ دنیا ہمیشہ ایسے لوگوں سے بھری رہی ہے جو کسی نہ کسی کے سہارے کے منتظر رہے، جو کسی ہاتھ کی گرفت چاہتے رہے، کسی کندھے کی تلاش میں رہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی ہمیشہ انہی لوگوں کا مقدر بنی جنہوں نے اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدلا، جنہوں نے سہارا نہ ملنے پر تھک کر بیٹھنے کے بجائے اپنی ہمت کو مٹھی میں بھینچ لیا اور چلتے رہے۔

سہارا ایک خوش فہمی ہے، جو مل جائے تو اچھی بات ہے، لیکن اگر نہ ملے تو کیا زندگی ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں! زندگی کا قانون یہی ہے کہ جو خود کو تھام سکتا ہے، وہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ دنیا میں ہر کسی کو کسی نہ کسی موڑ پر تنہا چلنا پڑتا ہے، اور وہی لوگ منزل پاتے ہیں جو تنہائی سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے اپنی طاقت بنا لیتے ہیں۔

سفر میں رُک جانا، ہاتھ تھامنے کی خواہش میں کھڑے رہنا، یا کسی کندھے کی تلاش میں وقت گنوا دینا—یہ سب کمزوری کی نشانیاں ہیں۔ جو لوگ واقعی جینا چاہتے ہیں، وہ اپنے قدموں پر بھروسا کرتے ہیں، اپنے حوصلے کو اپنا ہمسفر بناتے ہیں اور اپنی منزل کے لیے رواں دواں رہتے ہیں۔

کیونکہ اصل بات ہاتھ رکھنے یا تھامنے کی نہیں، بلکہ خود کو تھامنے اور سنبھالنے کی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top