ادب محبت کا مصلحتی نعم البدل

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

محبت اور ادب میں بظاہر ایک باریک سی لکیر ہے، مگر حقیقت میں یہ دونوں اتنے مختلف ہیں کہ اکثر ایک کی غیر موجودگی دوسرے کی موجودگی کا تقاضا بن جاتی ہے۔ جہاں دلوں میں محبت موجود ہو، وہاں رسمی ادب کی ضرورت نہیں پڑتی، مگر جہاں محبت کا فقدان ہو، وہاں تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے احترام کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ادب، درحقیقت، محبت کی عدم موجودگی میں تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے کا ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اگر والدین اور اولاد کے درمیان محبت ہو، تو فرمانبرداری کسی زبردستی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اگر دوستی میں خلوص ہو، تو تکلفات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر میاں بیوی کے درمیان سچّا پیار ہو، تو ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کے لیے اصولوں کی زنجیر نہیں ڈالنی پڑتی۔ مگر جہاں محبت مدھم پڑ جائے، وہاں تعلقات کو بکھرنے سے بچانے کے لیے ادب و احترام کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے

یہی وجہ ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے، وہاں بے تکلفی اور آزادی ہوتی ہے، اور جہاں محبت کی جگہ ادب لے لیتا ہے، وہاں تعلق ایک مقدس مگر بوجھل رسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ محبت میں فطری خودسپردگی ہے، جبکہ ادب میں محتاط فاصلے کا احساس۔ محبت میں کسی رسم کی ضرورت نہیں، مگر ادب میں حدیں قائم کرنا ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت کی دنیا میں اگر کوئی گستاخی بھی کرے، تو وہ معاف ہو جاتی ہے، مگر ادب کے دائرے میں ایک چھوٹی سی لغزش بھی ناراضگی پیدا کر سکتی ہے۔

یہ دنیا عجیب توازن پر قائم ہے— بعض اوقات ادب کو محبت سے برتر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ دراصل محبت کی غیر موجودگی کا مصلحتی نعم البدل ہوتا ہے۔ کسی دربار میں ادب ہو، یہ ضروری ہے، مگر کسی گھر میں محبت نہ ہو اور محض ادب و احترام کے سہارے رشتہ قائم ہو، تو یہ دلوں کے بجائے روایات کا بوجھ بن جاتا ہے۔

ادب، سماج کی ضرورت ہے، مگر محبت، زندگی کی حقیقت ہے۔ ادب سے تعلقات قائم رکھے جا سکتے ہیں، مگر ان میں روح پھونکنے کے لیے محبت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر محبت موجود ہو، تو ادب خودبخود پروان چڑھتا ہے، مگر اگر محبت ختم ہو جائے، تو ادب صرف ایک رسمی خول بن کر رہ جاتا ہے— ایک ایسا خول جو بظاہر خوبصورت مگر اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top