حلقۂ ظلم میں قیدِ انتخاب

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

یہ دنیا ایک عظیم تماشا ہے، اور اس کے باسی تماشائی بھی ہیں اور کردار بھی۔ کچھ صدیوں سے یہاں ایک رسم چلی آ رہی ہے— مظلوموں کو وقتاً فوقتاً یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ظالموں کا انتخاب خود کریں۔ انتخاب کا یہ سراب اس امید پر قائم رہتا ہے کہ شاید اس بار زنجیروں کا وزن کچھ ہلکا ہو، شاید بیڑیوں کی ساخت کچھ نرم ہو، شاید تازیانے کی شدت میں معمولی سی کمی آ جائے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ چہرے بدل جاتے ہیں، نظام وہی رہتا ہے، ظالم بدل جاتے ہیں، مگر استحصال کی داستان جوں کی توں رہتی ہے۔

ہر چند سال بعد تخت سجتے ہیں، امیدوں کے چراغ جلتے ہیں، نعروں کی گونج میں ایک نیا سورج طلوع ہونے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ مگر یہ سورج ہمیشہ غروب ہونے کے لیے نکلتا ہے، اور اس کی روشنی ہر بار دھوکہ ثابت ہوتی ہے۔ چہرے بدلتے ہیں، وعدے نئے ہوتے ہیں، مگر کہانی وہی پرانی رہتی ہے۔

یہ کھیل ایک دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ ظالموں کا ہر نیا طبقہ وہی پرانے ہتھکنڈے اپناتا ہے، وہی وعدے، وہی دعوے، اور پھر وہی فراموشی۔ مظلوموں کی باری صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے نئی زنجیریں منتخب کر سکیں، نئے ناموں کے ساتھ پرانے زخم سہنے کے لیے تیار ہو سکیں۔ انتخاب کا حق انہیں دیا جاتا ہے، مگر اختیار ان کے پاس نہیں ہوتا۔ ووٹ ڈالنے والے ہاتھ وہی رہتے ہیں، لیکن اقتدار کی لگام ہمیشہ وہی لوگ تھامے رکھتے ہیں جو اس کھیل کے اصل معمار ہوتے ہیں۔

یہی دنیا کا دستور ہے— اقتدار ہمیشہ چہروں کا جال بُنتا ہے، اور عوام ہمیشہ اس جال میں مکھیوں کی طرح الجھ کر رہ جاتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ شاید اس بار انصاف ہوگا، مگر انصاف کا ترازو ہمیشہ طاقت کے پلڑے میں جھکا رہتا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ شاید اس بار آزادی ملے گی، مگر غلامی کی زنجیر صرف شکل بدل کر پھر سے ان کے پیروں میں ڈال دی جاتی ہے۔

یہ انتخاب نہیں، بس اختیار کا دھوکہ ہے۔ اصل طاقت ان ہاتھوں میں رہتی ہے جو نظر نہیں آتے، اصل فیصلے ان دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں جو عوام کے لیے کبھی نہیں کھلتے۔ یہ محض ایک رسم ہے، جس کا مقصد مظلوموں کو اتنا مصروف رکھنا ہے کہ وہ سوال نہ کریں، وہ سوچنے کے قابل نہ رہیں، وہ بغاوت کا خیال بھی دل میں نہ لا سکیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا میں حقیقی تبدیلی کبھی انتخابی نعروں سے نہیں آئی، وہ ہمیشہ شعور کی بیداری سے آئی ہے۔ جب تک مظلوم یہ سمجھتے رہیں گے کہ ان کا اختیار بس ایک مہر لگانے تک محدود ہے، وہ ہمیشہ نئے ناموں کے ساتھ پرانے زخم کھاتے رہیں گے۔ جب تک وہ اپنی زنجیروں کو پہچاننے سے قاصر رہیں گے، وہ اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے، جہاں ظلم کا ہر نیا چہرہ پچھلے چہرے سے زیادہ سفاک ثابت ہوتا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ اس بار کون آئے گا، سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے واقعی جاننے کی کوشش کی کہ کھیل کے اصل قواعد کیا ہیں؟ کیا ہم نے سوچا کہ اگر ہمیں ہر بار ایک ہی جال میں پھنسایا جا رہا ہے تو جال بُننے والے کون ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ہم صرف اس دائرے کے اسیروں کی طرح گھومتے رہیں گے، ہر بار یہ سوچ کر کہ شاید اس بار منزل قریب ہے، جبکہ حقیقت میں ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے چلے تھے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top