(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
رنجشوں کا حق سبھی کو حاصل ہے، تغافل بھی شاید کسی آزمائش کا حصہ ہو، مگر زخم جب حد سے بڑھ جائیں، تو دل کی دہلیز پر ایسی دستک دیتے ہیں جو سیدھا آسمان تک سنائی دیتی ہے۔ انسان ظلم سہہ سکتا ہے، بے رُخی کا عادی ہو سکتا ہے، مگر جب دل کا بوجھ عرش کی سمت اٹھنے لگے، تو جان لینا چاہیے کہ معاملہ خاکی سے نکل کر روشنی کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔
صوفیاء کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر تکلیف دراصل صبر کا امتحان ہے، مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے، ایک وہ مقام جہاں خاموشی بھی دعا میں بدل جاتی ہے۔ کچھ ظلم ایسے ہوتے ہیں جو زبان پر شکوہ نہیں لاتے، مگر رات کے کسی پہر جب تنہائی لفظوں کو زخموں میں گھول دیتی ہے، تو وہ دعائیں بن کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگتی ہیں۔ اور جو دعا دل سے نکلے، اس کی تاثیر کسی زنجیر میں قید نہیں کی جا سکتی۔
دیکھا جائے تو رنجش بھی ایک تعلق کی نشانی ہے، اور تغافل بھی تبھی دکھ دیتا ہے جب دل میں امید باقی ہو۔ مگر انسان کو اتنا نہ آزمایا جائے کہ وہ اپنی فریاد مخلوق سے نکال کر خالق کے دربار میں پیش کر دے۔ کیونکہ جب معاملہ وہاں پہنچتا ہے، تو فیصلے دنیا کے اصولوں پر نہیں، قدرت کے میزان پر ہوتے ہیں۔ وہاں دلیلیں نہیں، سچائی بولتی ہے، وہاں منصب اور رتبہ نہیں، دل کا حال دیکھا جاتا ہے۔
جو دل کے دکھ کو سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ایک نازک احساس کو توڑ دینا آسان ہے، مگر اس کے ٹکڑوں سے اٹھنے والی صدا کو روکنا ممکن نہیں۔ اس لیے اگر کوئی دل دُکھائے بھی، تو ایسا نہ ہو کہ بات خدا تک جا پہنچے، کیونکہ جب دل اور خدا کے درمیان پردے ہٹ جاتے ہیں، تو پھر دنیا کے تمام حساب بے معنی ہو جاتے ہیں۔