دریا اور انسان

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

دریا راستے نہیں ڈھونڈتے، اپنے راستے خود بناتے ہیں۔ چٹانیں راہ روکیں تو شکایت نہیں کرتے، بس خاموشی سے نیا راستہ تراش لیتے ہیں۔ زندگی میں بھی کچھ رکاوٹوں کو توڑنا نہیں، چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے۔ جو ضد اور انا میں الجھتے ہیں، وہ رک جاتے ہیں، مگر جو دریا کی طرح بہتے ہیں، وہ بالآخر سمندر تک پہنچ جاتے ہیں۔

دریا میں اترنے کا حوصلہ چاہیے، کنارے پر کھڑے لوگ کبھی پار نہیں کرتے۔ زندگی بھی دکھ اور سکھ کے پانی میں قدم رکھے بغیر نہیں گزرتی۔ ہر آزمائش، ہر زخم ایک سنگ میل ہے، جو بہادروں کو منزل تک لے جاتا ہے۔

دریا کو دھکا نہیں لگتا، وہ خود آگے بڑھتا ہے۔ جو دوسروں کے سہارے کے بغیر اپنی راہ تراشتے ہیں، وہی وقت کے سمندر میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔ گہرا دریا پُرسکون ہوتا ہے، جیسے گہرے لوگ خاموش مگر دانا ہوتے ہیں۔

پتھر پھینکنے والوں سے دریا نہیں الجھتا، بس بہتا رہتا ہے۔ زندگی میں بھی اصل کامیابی انہیں نظرانداز کر کے اپنی رفتار برقرار رکھنے میں ہے۔ دریا دوسروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے نہیں گھبراتا، وہ قطرے سمیٹ کر سمندر بنتا ہے۔ یہی ظرف عظیم لوگوں میں ہوتا ہے— وہ اپنی وسعت میں دوسروں کو جگہ دیتے ہیں۔

زندگی بھی دریا کی مانند ہے، بہنا ہی اس کا اصول ہے، اور کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے جو ہر رکاوٹ کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top