(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کائنات کی تخلیق کا بنیادی اصول تغیر ہے۔ ہر شے، چاہے وہ کتنی ہی مستقل کیوں نہ لگے، درحقیقت ایک مسلسل بدلاؤ کے عمل سے گزر رہی ہے۔ میسّر، حُسن اور فلسفہ جیسے تصورات بھی اسی تبدیلی کا حصہ ہیں، جو انسانی تجربے کو مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہیں۔ یہ سب ہماری سوچ، جذبات، اور ضروریات کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں، اور ان کی گہرائی میں جھانکنے سے ہمیں اپنے اردگرد کی حقیقت کا بہتر ادراک ہوتا ہے۔
میسر کی حقیقت اس کی اپنی نہیں بلکہ ہماری ضرورت سے جڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی چیز کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہماری ضرورت شدید ہو۔ ایک پیاسے کے لیے پانی دنیا کی سب سے قیمتی شے بن جاتا ہے، لیکن جیسے ہی پیاس بجھتی ہے، پانی کی وہ اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ میسر ہمیشہ ضرورت کے تابع رہتا ہے، اور ضرورت کے بدلنے کے ساتھ ہی میسر کا مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔ یہی تغیر کا اصول ہے کہ کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے قیمتی یا بے وقعت نہیں رہتی۔ ضرورت کے کم یا زیادہ ہونے سے چیزوں کی حیثیت بدلتی رہتی ہے، اور یہ بدلاؤ زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے۔
حسن کی حقیقت بھی اسی تبدیلی کے اصول پر قائم ہے۔ بظاہر یہ ایک مستقل دلکشی کی شکل میں دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کی اصل عارضی ہے۔ حسن کا دارومدار دیکھنے والے کی نظر، اس کے جذبات، اور اس کے اندرونی حالات پر ہوتا ہے۔ حسن اپنی موجودگی میں دل کو مسحور کر لیتا ہے اور اکثر اسے چاہنے والے اس کی عارضیت کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسن کی کشش عارضی ہوتی ہے، اور یہ ایک لمحے کے لیے مکمل دکھائی دے کر اگلے لمحے اپنی دلکشی کھو دیتا ہے۔ حسن جذبات کے ذریعے دل پر راج کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ فلسفہ، جو منطق اور دلیل پر قائم ہوتا ہے، حسن کے سامنے کمزور پڑ جاتا ہے۔
فلسفہ ہمیشہ حسن کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ فلسفہ حسن کے جذباتی پہلو کو کبھی مکمل طور پر گرفت میں نہیں لے پاتا۔ حسن کی موجودگی میں فلسفہ محض ایک دلیل بن کر رہ جاتا ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے۔ حسن مٹ سکتا ہے، اس کی کشش ختم ہو سکتی ہے، لیکن فلسفہ ہمیشہ سوالات کی صورت میں قائم رہتا ہے۔ فلسفے کا کام حقیقت کو سمجھنا اور بیان کرنا ہے، مگر دل، جو جذبات کی دنیا میں رہتا ہے، فلسفے کی ان دلیلوں کو اکثر نظرانداز کر دیتا ہے۔ یہی تضاد حسن کو وقتی طور پر مکمل اور فلسفے کو ہمیشہ کے لیے نامکمل بنا دیتا ہے۔
زندگی انہی تضادات کا مجموعہ ہے۔ میسر کا بدل جانا، ضرورت کی شدت، حسن کی عارضیت، اور فلسفے کی کمزوری—یہ سب ایک کہانی کے مختلف پہلو ہیں، اور یہ سب ہمیں تغیر کے اس اصول کی طرف لے جاتے ہیں جو ہر چیز کا مقدر ہے۔ یہ بدلاؤ ہی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے، جو ایک طرف نئی تخلیق کو جنم دیتا ہے اور دوسری طرف پرانے خیالات، ضرورتوں، اور جذبوں کو ختم کرتا ہے۔ ہر نئی شے پرانے کا خاتمہ کرتی ہے، اور ہر نیا میسر ہماری نئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔
یہ سب مظاہر، بظاہر متضاد لگنے کے باوجود، ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔ حسن، فلسفہ، اور میسر کی یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی ہر شے بدلنے کے لیے بنی ہے، اور یہی تغیر زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ چاہے دل اس حقیقت کو قبول کرے یا نہ کرے، کائنات کا ہر حسن اسی اصول کے تحت فنا ہوتا ہے، اور ہر فلسفہ اسی اصول کے تحت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔