آنکھیں ویران لگتی ہیں
سوالیہ نشان لگتی ہیں
بکھرا ہوا کاجل ہر سُو
ٹوٹا ہوا مان لگتی ہیں
زمین کھو گئی ہو جس کی
تنہا تنہا آسمان لگتی ہیں
شبنم بن کے برسی ہوں رات بھر
کسی پھول پہ مہربان لگتی ہیں
رتجگا ہے نمایاں تیمارداری کا
کسی مریض کی نگہبان لگتی ہیں
وجودِ لاریب ہے وہ نعیم
یہ جس کی دربان لگتی ہیں