آنکھوں نے میری دیکھا ہے منظر لہو لہو
مرے صحن میں آ کے گرا ہے کبوتر لہو لہو
نکلا تھا جو گھر سے آشتی کا پیغام لے کے
منزل پر تو ہے پہنچا ہو کر لہو لہو
کس میکدے میں اپنا آ کر کھلا ہے کھاتہ
بٹتے ہیں کھوپڑیوں کے ساغر لہو لہو
مر چلا ہے آخر یہ بھرم رکھتے رکھتے
باہر سے ہنسنے والا ہے اندر لہو لہو
کل لہو جگر کا دے کے سینچا نعیم جسے
نظر آ رہا ہے وہی آج شجر لہو لہو
