آنسو… دل کی زبان اور لمسِ وفا

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کہا جاتا ہے کہ مسکراہٹ ہر چہرے کا زیور ہے، اور ہر محفل کی رونق۔ یہ وہ تحفہ ہے جو ہم دنیا کے ہر شخص کو بانٹ سکتے ہیں، چاہے دل کی زمین بنجر ہو یا روح پر گھاؤ لگے ہوں۔ مسکراہٹ تو محض ایک خوبصورت پردہ ہے، جو اکثر دل کے درد کو چھپا لیا کرتا ہے۔

مگر آنسو…
آنسو دل کی وہ زبان ہیں، جو ہر کسی کے سامنے بولی نہیں جاتی۔ یہ صرف اُن لمحوں میں رواں ہوتے ہیں، جب دل پر بچھڑنے کا اندیشہ طاری ہو، یا جب روح کو یہ خوف گھیر لے کہ کہیں وہ ہستی، جسے ہم اپنی سانسوں میں بسا بیٹھے ہیں، ہمارے دائرۂ زندگی سے چھن نہ جائے۔

یہ وہ خاموش دعائیں ہیں، جو پلکوں کی دہلیز پر لرزتی ہیں۔ یہ وفا کی وہ نمی ہے، جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتی۔ یہ وہ درد ہے، جو لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ کبھی ہنستے چہرے کے عقب میں چھپا ہوتا ہے، تو کبھی سجدے کی مٹی میں جذب ہو جاتا ہے۔

کبھی ہم کسی کے سامنے مسکرا دیتے ہیں، اور تنہائی میں وہی مسکراہٹ آنکھوں کی نمی میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی آنسو دراصل ہمارے رشتوں کی اصل قیمت ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہر اُس شخص کے لیے بہتے ہیں، جسے ہم کبھی کھونا نہیں چاہتے — جو ہماری روح کا وہ حصہ بن چکا ہوتا ہے، جس کے بغیر زندگی کی کتاب ادھوری رہتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top