آسماں سے بات کرنے کے لیے کوئی تو رہنے دو دروازہ کھلا

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ہم ہمیشہ آسمان سے بات کرنے کے لیے اوپر دیکھتے ہیں، کسی خارجی دروازے کی تلاش میں رہتے ہیں، کسی ایسی کھڑکی کی امید رکھتے ہیں جو خلا میں کھلتی ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آسمان سے بات کرنے کا دروازہ نہ اوپر ہے، نہ باہر—وہ دروازہ اندر کی طرف کھلتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم ہر جگہ خدا تلاش کرتے ہیں، سوائے اس جگہ کے جہاں وہ اصل میں موجو د ہے۔۔۔ہمارے اپنے اندر۔”
۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آسمان کسی بلند چوٹی پر جا کر ہاتھ پھیلانے سے قریب آ جائے گا، یا کسی مقدس در پر جھکنے سے ہمیں وہ روشنی میسر آ جائے گی جو ہمارے سوالوں کا جواب دے سکے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جس دروازے سے ہم آسمان سے ہم کلام ہو سکتے ہیں، وہ ہمارے اپنے اندر بند پڑا ہے۔

یہ دروازہ کسی مندر، کسی مسجد، کسی خانقاہ میں نہیں—یہ دروازہ دل کے اندر ہے، اور وہی لوگ آسمان سے ہمکلام ہوتے ہیں جو اپنے اندر کا دروازہ کھولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ مگر ہم نے اپنی دنیا میں اتنے شور پیدا کر لیے ہیں کہ اپنے باطن کی خاموش صدائیں سن ہی نہیں پاتے۔

ہم روشنی کو باہر تلاش کرتے ہیں، جبکہ وہ اندر سے پھوٹتی ہے۔

ہم آسمان کو کہیں اوپر ڈھونڈتے ہیں، جبکہ وہ ہمارے اندر موجود ہے۔

ہم خدا کو فاصلوں میں دیکھتے ہیں، جبکہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔

آج کا انسان اس قدر بکھر چکا ہے کہ وہ اپنی ذات میں جھانکنے سے ڈرتا ہے۔ وہ باہر کے دروازے کھٹکھٹاتا رہتا ہے، جبکہ اس کے باطن میں روشنی کی ایک راہ موجود ہے، جسے کھولنے کے لیے نہ کوئی چابی چاہیے، نہ کوئی طاقت—بس ایک لمحہ درکار ہے، ایک یقین، ایک ادراک کہ آسمان کہیں باہر نہیں، وہ ہمارے اندر ہے۔

جو لوگ اپنی ذات کی دیواروں کو توڑ کر اس دروازے کو کھول لیتے ہیں، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا ہر سوال پہلے ہی آسمان تک پہنچ چکا تھا، ہر آہ پہلے ہی کسی نامعلوم وسعت میں گونج چکی تھی، اور ہر دعا پہلے ہی قبول ہو چکی تھی—بس انتظار تھا اس دروازے کے کھلنے کا، جو ہماری اپنی بےخبری میں ہم نے خود ہی بند کر رکھا تھا۔

تو اے راہ گم کردہ مسافر!
آسمان سے بات کرنے کے لیے،
کوئی تو رہنے دو دروازہ کھلا—
مگر باہر نہیں،
اپنے اندر!

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top