آسماں سے اترتا ہوں دریا فتح کرتا ہی رہوں گا

غزل

آسماں سے اترتا ہوں دریا فتح کرتا ہی رہوں گا
اونچ نیچ کا نہیں قائل ہموار اپنی سطح کرتا ہی رہوں گا

میرے اسلاف کی جاگیر ہے حق دار ہوں اس کا
کسی اور کو بخشے کا فقیری تو شفعہ کرتا ہی رہوں گا

زرخیز صفت ہوں پھول بھی اُگنے ہیں ببول بھی
خاک کا پُتلا ہوں تو خطا کرتا ہی رہوں گا

آگ سے ٹوٹ چلی نسبت چولہے کی تو کیا غم
فکر اُس کو جس کا وعدہ ہے عطا کرتا ہی رہوں گا

امیری جھانک رہی ہے دروبام سے مدت ہوئی نعیم
دونگا پہرہ میں غریبی کا منع کرتا ہی رہوں گا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top