اب تو سلامتی کے سب آثار مر گئے
جِن پر تھا ناز سارے طرف دار مر گئے
یہ خاکِ پاک خاک کے کیڑے ہی کھا گئے
خاکی ترے تو سارے ہی معیار مر گئے
کیا پوچھتے ہو ہم تو ہیں عاشق مزاج لوگ
اہلِ خرد کہیں جنہیں بیکار مر گئے
مانا کہ موت آئے گی اک بار ہے اٹل
پر زندگی میں ہم تو کئی بار مر گئے
اب دوسروں سے چھین کے پیتے ہیں سب نعیم
پینے کے ، قرض لے کے ، روادار مر گئے