ادھورے خوابوں کا ورثہ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

خواب صرف نیند کی داستان نہیں، یہ جاگتی آنکھوں کی وہ شمعیں ہیں جنہیں ہم اپنی ہتھیلیوں پر رکھ کر زندگی کی آندھیوں سے بچاتے ہیں۔ مگر اکثر، یہ شمعیں مکمل روشن ہونے سے پہلے ہی بجھ جاتی ہیں — اور ان کا دھواں، اگلی نسل کی سانسوں میں اتر جاتا ہے۔
ادھورے خواب محض ذاتی ناکامیاں نہیں ہوتے، یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونے والا ورثہ ہوتے ہیں — ایک غیر مرئی میراث، جو خون میں نہیں، مگر شعور میں بہتی ہے۔
باپ کا ادھورا خواب بیٹے کی تمنا بن جاتا ہے، ماں کی چھینی ہوئی خواہش بیٹی کی محرومی کا خوف بن جاتی ہے۔
ہمیں شاید اس لمحے کا ادراک نہیں ہوتا جب ہم اپنی نامکمل خواہشوں کی خاک کو نصیحت کے نام پر اولاد کی روح پر جھاڑ دیتے ہیں۔
ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم انہیں کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،
مگر درحقیقت، ہم ان پر اپنے ادھورے خوابوں کا بوجھ رکھ رہے ہوتے ہیں۔
یہ خواب، جو کبھی ہمارے دل کی دھڑکن تھے، اب ہمارے بچوں کے کندھوں کا وزن بن چکے ہوتے ہیں۔
ادھورے خوابوں کا یہ ورثہ ایک ایسی زنجیر ہے جو نسل در نسل بندھی چلی آتی ہے — اور ہر نسل اسے توڑنے کی بجائے، مزید سنوار کر آگے بڑھا دیتی ہے۔
یوں یہ خواب پورے ہونے کے بجائے، مزید بکھرتے چلے جاتے ہیں — جیسے آئینہ، جو ہر ہاتھ میں ٹوٹتا ہے، مگر کوئی اسے چھوڑتا نہیں۔
خوابوں کا یہ ورثہ اگر پیاس کی شکل میں منتقل ہو، تو شاید یہ نسلوں کو بیدار کر دے،
لیکن اگر یہ خوف بن کر چلے، تو روحوں کو مفلوج کر دیتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے خوابوں کا حساب کریں —
کون سے خواب ہمارے ہیں؟
کون سے ہم پر تھوپے گئے؟
اور کون سے ہم لاشعوری طور پر آگے منتقل کر رہے ہیں؟
کیونکہ بعض اوقات، خوابوں کا ورثہ خوابوں کی تکمیل نہیں کرتا —
بلکہ صرف ادھورے پن کی روایت کو قائم رکھتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top