(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
لفظ… محض آواز کا پیرہن نہیں ہوتے،
یہ احساس کی شریانوں میں دوڑتے ہوئے وہ دھاگے ہیں
جو دل کی سلائی کو کہیں جوڑ کر بھی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔
ادھوری باتیں، دراصل مکمل ہونے کا سب سے باوقار انکار ہوتی ہیں —
ایسا انکار، جو لبوں سے کم،
اور تقدیر کی انگلیوں سے زیادہ ادا ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کائنات نے کچھ جملے خود اپنے سینے میں چھپا رکھے ہیں —
تاکہ جب وقت اپنے زخموں کے پتے کھولے،
تو وہ الفاظ، جو کبھی ادا نہ ہو سکے،
فضا میں تمثالوں کی طرح تیرنے لگیں۔
ادھوری باتیں وہ غنچہ ہیں جو کبھی کھلنے سے ڈر گئے،
یا وہ چراغ جو ہوا سے نہیں،
اپنے ہی ہاتھوں کی لرزش سے بجھ گئے۔
یہ باتیں زمین پر نہیں،
روح کی چھت پر لکھی جاتی ہیں —
جہاں ہر سطر، ایک التجا ہوتی ہے
اور ہر خاموشی، ایک اذان۔
ان کا رنگ الفاظ سے زیادہ وقفے میں چھپا ہوتا ہے —
وہی وقفہ جو ایک سانس کے درمیان
“کہنا” اور “چھپانا” کے بیچ لڑتا رہتا ہے۔
ادھوری باتیں اکثر مکمل لمحوں کا قرض ہوتی ہیں —
ایسا قرض، جو وقت کی قسطوں میں نہیں،
صرف یاد کے سود میں ادا ہوتا ہے۔
یہ وہ پرچھائیاں ہیں، جو چمکدار روشنی میں بھی ساتھ رہتی ہیں —
کہ جب زندگی گونجتی ہے،
تو سب سے پہلے انہی خاموشیوں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔
ادھوری باتیں، بعض اوقات آئینے کے عکس جیسی ہوتی ہیں —
صاف، مگر الٹی۔
کہنے والے کے لیے بوجھ،
اور سننے والے کے لیے راز۔
اور جب یہ صدائیں لوٹتی ہیں —
تو نہ وقت کا لحاظ رکھتی ہیں،
نہ مقام کا۔
بس دروازے کے کواڑ پر دستک دیتی ہیں،
اور دل کے دریچے سے داخل ہو کر
روح کی مٹی کو تر کر دیتی ہیں۔
یاد رکھو —
مکمل کہی گئی باتیں فنا ہو جاتی ہیں،
مگر جو نہ کہی جا سکی،
وہی ابدی بنتی ہے۔
کیونکہ خامشی میں جو صدائیں چھپی ہوتی ہیں،
وہی کائنات کے سب سے بڑے مکاشفے ہوتی ہیں۔