ایک دن آئے گا ، ہستی سے گزر جانا ہے
لاکھ چاہوں نہیں جانے کا مگر جانا ہے
چند گھڑیوں کے تعلق پہ بھروسہ کیسا
ایک دن زندگی ، تو نے تو مکر جانا ہے
چشمِ نمناک کا دھندلا سا تماشہ کب تک
زیست کا سیل یہ پل بھر میں اتر جانا ہے
چپ رہو سونے دو مجھ کو ، اسے جینے دو ابھی
خواب تو خواب ہے ، آخر اسے مر جانا ہے
ہے سرائے میں مسافر کی طرح تیرا قیام
مختصر رختِ سفر باندھ ، جدھر جانا ہے
دیکھ لو ہم جو بجھا دیں گے اجالے یہ نعیم
کتنی نسلوں نے اندھیروں میں اتر جانا ہے
