ایک دن آئے گا ، ہستی سے گزر جانا ہے

غزل

ایک دن آئے گا ، ہستی سے گزر جانا ہے
لاکھ چاہوں نہیں جانے کا مگر جانا ہے

چند گھڑیوں کے تعلق پہ بھروسہ کیسا
ایک دن زندگی ، تو نے تو مکر جانا ہے

چشمِ نمناک کا دھندلا سا تماشہ کب تک
زیست کا سیل یہ پل بھر میں اتر جانا ہے

چپ رہو سونے دو مجھ کو ، اسے جینے دو ابھی
خواب تو خواب ہے ، آخر اسے مر جانا ہے

ہے سرائے میں مسافر کی طرح تیرا قیام
مختصر رختِ سفر باندھ ، جدھر جانا ہے

دیکھ لو ہم جو بجھا دیں گے اجالے یہ نعیم
کتنی نسلوں نے اندھیروں میں اتر جانا ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top