الفاظ کا گورکھ دھندہ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

الفاظ صرف آوازوں کا مجموعہ نہیں، یہ ایک ایسا پیچیدہ جال ہیں جس میں معانی، جذبات اور تاثرات اس طرح الجھے ہوتے ہیں کہ اکثر سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو کہا جاتا ہے، وہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو سنا جاتا ہے، اور جو سنا جاتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ وہی ہو جو سمجھا جاتا ہے۔ یہی الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے— ایک ایسا پیچیدہ کھیل، جہاں ہر لفظ اپنی سطح پر ایک نیا مطلب رکھتا ہے۔

انسان لفظوں کے ذریعے اپنی دنیا تعمیر کرتا ہے، مگر انہی لفظوں میں کبھی کبھی ایسا دھوکہ چھپا ہوتا ہے کہ حقیقت مسخ ہو جاتی ہے۔ کچھ الفاظ محبت جتانے کے لیے بولے جاتے ہیں، مگر ان کے پیچھے انا کی دیوار ہوتی ہے۔ کچھ لفظ ہمدردی کے لباس میں لپٹے ہوتے ہیں، مگر ان کے اندر منافقت چھپی ہوتی ہے۔ کہیں کوئی خاموشی بولتی ہے، اور کہیں بولنے والے بھی خاموشی کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔

یہ زبان کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ ایک لفظ انسان کو عزت کی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے، اور ایک ہی لفظ اسے مٹی میں ملا سکتا ہے۔ بعض اوقات حقیقت کو چھپانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے، اور بعض اوقات الفاظ ہی حقیقت کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر سننے والا اپنی فہم، اپنی سوچ اور اپنی خواہش کے مطابق الفاظ کو ایک نیا مفہوم دے دیتا ہے، اور یہی وہ گورکھ دھندہ ہے جس میں دنیا صدیوں سے الجھی ہوئی ہے۔

اصل سوال یہ نہیں کہ الفاظ کیا کہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ الفاظ کے پیچھے نیت کیا ہے؟ اگر نیت صاف ہو، تو الفاظ روشنی بن جاتے ہیں، اور اگر نیت میں کھوٹ ہو، تو یہی الفاظ اندھیروں کا جال بن جاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے فریب، سب سے بڑی جنگیں، سب سے گہری محبتیں، سب سے شدید نفرتیں— سب کچھ الفاظ کی گتھیوں میں چھپا ہوتا ہے۔

یہی الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے، جہاں معنی ہمیشہ سیدھے نہیں ہوتے، اور حقیقت ہمیشہ واضح نہیں ہوتی۔ یہاں ہر جملہ ایک نیا راستہ دکھاتا ہے، اور ہر راستہ ایک نیا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض سچائیوں کو لفظوں میں قید نہیں کیا جا سکتا، اور بعض جذبات کو بیان کرنا ہی انہیں کمزور کر دیتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top