اماوس کی رات ٹھہر سی گئی ہے
تاروں کی بارات ٹھہر سی گئی ہے
خاموشی موت سے مترادف ہے، اور
لبوں پہ بات ٹھہر سی گئی ہے
روز اک چرکا لگا دیتے ہیں
غموں کی گھات ٹھہر سی گئی ہے
خوف زدہ رکھتا ہے جیت کا تصور بھی
ذہنوں میں مات ٹھہر سی گئی ہے
حجاب کا کرشمہ ہے نعیم یہ
مقدر میں خیرات ٹھہر سی گئی ہے