اپنے ہی احباب دھوکہ دے گئے
جسم کو اعصاب دھوکہ دے گئے
پانی بھرنے آئی تھی وہ گاؤں سے
شہر کے تالاب دھوکہ دے گئے
جن پہ تکیہ کر رکھا تھا عمر بھر
سارے ہی اسباب دھوکہ دے گئے
نیند سے شکوہ بجا ہے دوستو
میرے سارے خواب دھوکہ دے گئے
جو نظر آتے تھے ماتھے پر نعیم
وہ ہی تو محراب دھوکہ دے گئے
