اپنے نفس کے احتساب سے گزرے ہیں

غزل

اپنے نفس کے احتساب سے گزرے ہیں
ہم خود ساختہ عذاب سے گزرے ہیں

عالمِ جان کنی جسے کہتے ہیں
اُس لمحہء نایاب سے گزرے ہیں

ہر نفس پہ لگے ہیں خوف کے پہرے
اتفاقاً جو کوچہ ارباب سے گزرے ہیں

انسان کے خلاف ہی بھڑکایا اُس نے
دورِ حاضر کے جس نصاب سے گزرے ہیں

لاجواب کر گئے اہلِ جواب کو
غریب کے سوال جب جواب سے گزرے ہیں

جھوٹی خدائی کے یہ دعویدار نعیم
خوش ہیں کہ اس خطاب سے گزرے ہیں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top