اپنی فتح کا جشن منا رہا ہے
مری دہلیز پہ درد لہرا رہا ہے
نزع میں بھی عقل ہے قلب کے ساتھ
ڈوبتی نبضوں سے خوف آ رہا ہے
زندگی دے کے مات آگے گزر گئی
تو ہاتھ کی لکیروں پہ اترا رہا ہے
جنوں سے صبر کی ہے تکرار مسلسل
درِ یار پہ عشق کراہ رہا ہے
ہجر کی کربلا میں پیاسا نعیم
پیاس سے پیاس کو بجھا رہا ہے