بے بسی ہی انسان کا حاصل تو ہے
یہ زندگی ریت کا ساحل تو ہے
یہ لطف و کرم ہے ہجر کی عطا
جبیں کو سجدے کا وصل حاصل تو ہے
اس سے بڑھ کر جنت اور کیا ہو گی
ترا ذکر تو ہے، تری محفل تو ہے
اس سے بڑھ کر کیا ہو گی مسیحائی
تاثیرِ ہجر تحریر میں شامل تو ہے
اُس کی زلفوں کو چھیڑ بیٹھی ہے
یہ بادِ صبا نعیم پاگل تو ہے