بےوقت کھٹکھٹاتے ہیں دروازے میرے شہر کے لوگ
اک دوسرے پہ کستے ہیں آوازے میرے شہر کے لوگ
دبیز پردوں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے فقیر کی صدا
جب سے گئے ہیں نوازے میرے شہر کے لوگ
اندیشہ کچھ تو ہے جو تریاق لئے پھرتے ہیں
حقیقت کرتے نہیں واضع میرے شہر کے لوگ
کمال ہنر ہے کہ قامت تک بدل دیتے ہیں
کہاں بدلتے ہیں لبادے میرے شہر لے لوگ
بڑے پکے سوداگر ہیں وقت پڑنے پر نعیم
بیچ دیتے ہیں ارادے میرے شہر کے لوگ