چہرے کہہ رہے ہیں آئینہ نہیں کوئی

غزل

چہرے کہہ رہے ہیں آئینہ نہیں کوئی
آئینہ حیراں ہے کہ چہرہ نہیں کوئی

یوں تو ساتھ کھڑی ہے تمنا کی دیوار
کچھ ہی دیر ٹھہر سکوں سایہ نہیں کوئی

اپنے بھی بس منہ ہی دیکھتے رہتے ہیں
لگتا ہے مجھ سے تو شناسا نہیں کوئی

آ بھی گئی جو بہار تو حاصل کیا ہو گا
صحن چمن میں پھول ہی کھلتا نہیں کوئی

پھیلایا ہے نعیم اندھیرے نے خوف اسقدر
نکلا رات میں چاند ستارہ نہیں کوئی

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top