چڑیا کہہ رہی تھی کوئی میرا سانحہ خرید لے

غزل

چڑیا کہہ رہی تھی کوئی میرا سانحہ خرید لے
چند دانوں کے بدلے کوئی گھونسلہ خرید لے

بیٹی کے سر میں اُتر آئی ہے چاندی
ہے کوئی جو باپ کا گردہ خرید لے

چپکے سے کہہ رہا ہوں سجدے میں، یارب
میرے بچے بھوکے ہیں، سجدہ خرید لے

دینے کی تجھے توفیق نہیں تو کوئی بات نہیں
میں بیچنے آیا ہوں، میرا کاسہ خرید لے

بیمار ماں کی مجھے دوائی خریدنی ہے
ایک بچہ رو رہا ہے، کوئی بستہ خرید لے

میں کرب و بلا کا مسافر ہوں، میرا اصغر پیاسا ہے
یزید وقت سے کہہ دے، میرا نیزہ خرید لے

جو بے نیاز کے در پر مقبول ہے، نعیم
صدیوں کی عبادت بیچ کر لمحہ خرید لے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top